Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
 
<< Previous Page
1 2 3 4 5 6 7 8 9
Next page >>
Page 8 of 9

  Reply to Topic    Printer Friendly 

AuthorTopic
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Monday, July 5, 2010  -  7:20 PM Reply with quote
I read the article and managed to read it without my glasses it was a bigger font.
Well you managed very well in english with clarity of thought and correct usage of words keep it up.
isfi22

PAKISTAN
Posted - Tuesday, July 6, 2010  -  4:55 PM Reply with quote
Salam and Thanks a lot Respected aunt for reading article and continuous encouraging and appreciating.

This is one of the most important controversial issues of the Muslim thought and practices, so I wish and like that some participants criticize on it and give some kind of detailed commentary then we would be able to go more in a healthy debate.

May Almighty God help and guide us and give us successes and best circumstances and gatherings in here and in next and real life and world.
aboosait

INDIA
Posted - Tuesday, July 6, 2010  -  5:44 PM Reply with quote
isfi22 wrote:
quote:

.....The Verse quoted in this regard, I did not understand the relation of the meaning of that Verse with the circumstances, we are talking about.......


isfi22 also wrote:
quote:

........I request Respected Mr. Aboosait that please Use Quranic Verses in their real context and infer with them in a sense full way and healthy manner.......


isfi22, The second quote gives an impression that you have taken for granted that the verse I quoted has no bearing with the subject of discussion whereas the first quote gives an impression that you sincerely believe that it is a lack of undertanding on your part.

The point I was trying to prove is that Allah s.w.t. has not told anywhere that a muslim should punish the public en-masse in the way they are doing now. Even He s.w.t. never punishes His offenders in that way. He used to send His Messengers to educate not only the poor but also the rich in particular. And a Muslim's duty is to carry on this duty of educating others because He has declared Mohammed Sallallahu Alaihi wasallam to be the last of the messengers and the work of educating and spreading the message of Allah has been entrusted to the Ummah.

Please read the Verse again and tell me if you could fathom the reason for my quoting that Verse in this context.
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Sunday, July 18, 2010  -  6:07 PM Reply with quote
Isfi I have a question for you. Qawali sometimes uses kalam which does not address God directly but addresses dead sufi saints and the poet asks him for favors. I know this not right,but is there any harm in listening to such Qawali ?
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Thursday, July 22, 2010  -  5:34 AM Reply with quote
Isfi where have you dissappeared okay any one else wants to answer this question
isfi22

PAKISTAN
Posted - Thursday, July 22, 2010  -  11:00 AM Reply with quote
قوالی ہو یا کوئی اور صنفِ کلام اگر معقول باتوں پر مشتمل اور شرک و کفر پر مبنی عقائد کے اظہار یا خلافِ اسلام افکار و معتقدات کے بیان سے خالی ہو تو اسے پڑھنے سننے میں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا، لیکن اگر کوئی کلام گو صوفیانہ کلام ہی کیوں نہ ہو، اگر خدا کے علاوہ کسی اور کے غیر معمولی تقدس و عظمت کے بیان اور کسی غیر خدائی ہستی کے خدائی اوصاف و اختیارات و کمالات کے حامل ہونے کے ادعا پر مبنی ہو تو ایک مسلمان کس طرح اسے پڑھنے سننے کا روادار ہوسکتا ہے۔ ہمارے دین میں توحید سب سے بنیادی اور اہم ترین عقیدہ و اساس ہے اور توحید سے سچی اور حقیقی وابستگی کا تقاضا ہے کہ ہر طرح کے شرک و کفر سے چاہے وہ عقیدے کا حصہ ہو یا کسی رسم و روایت کا، کلام کا حصہ ہو یا کسی صوفیانہ قوالی کا آخری درجے میں پرہیز و گریز کرے۔ شرک کی نجاست اتنی غلیظ و قابلِ نفرت نجاست ہے کہ اس سے آلودہ ہوجانے کے نتیجے میں سخت اندیشہ ہے کہ انسان خدا کی پکڑ میں آجائے اور اس کے انتہائی غضب کا نشانہ بن جائے۔ شرک کا جانتے بوجھتے ارتکاب ہی وہ بدترین و مبغوض ترین عمل ہے جس پر خدا کا اعلان ہے کہ وہ اسے معاف نہیں فرمائے گا۔ لہٰذا ایک سچے مسلمان اور خدا سے حقیقی معنوں میں وفادار بندے کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے کلام کو سننے پڑھنے کا تحمل کرے جس میں خدا کی توحید پر حرف رکھا گیا ہو اور کسی غیر خدا زندہ یا مردہ، جاندار یا بے جان ہستی کو خدائی اوصاف و اختیارات و کمالات کا حامل مانا گیا اور اس سے مددطلبی اور فریاد گزاری کی گئی ہو۔


محترم آنٹی صاحبہ میں کہیں غائب نہیں ہوا بلکہ ایک خاص ٹاپک پر فورمز میٹز کے بلاوجہ کی بحث بازی اور گرما گرمی کو دیکھ کر کچھ بددل سا ہوگیا تھا۔ میں اس طرح کی چیزوں سے بالکل بھی دلچسپی نہیں رکھتا اور نہ ٹائم پاس اور وقت گزاری قسم کی کسی ڈیبیٹ کا حصہ بننا پسند کرتا ہوں، اس لیے یہاں آنا بند کردیا تھا۔ اگر کوئی صحت مند و مفید گفتگو شروع کی گئی تو ان شاء اللہ اُس میں شریک ہونے میں خوشی محسوس کروں گا۔ ویسے میں کافی دنوں سے ایک نیا ٹاپک پوسٹ کرکے اس پر اپنے خیالات پیش کرنے کی کوشش کررہا ہوں لیکن معلوم نہیں کیوں بار بار ایرر آرہا ہے اور سائٹ کسی نئے ٹاپک کو اپ لوڈ کرنے نہیں دے رہی۔


Edited by: isfi22 on Friday, July 23, 2010 8:12 AM
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Thursday, July 22, 2010  -  11:32 AM Reply with quote
Thank you isfi but dont disappear but I do understand what you are saying about useless arguments. do you know why people in our region visit mazar or go to peers? the root cause and reason?
isfi22

PAKISTAN
Posted - Thursday, July 22, 2010  -  4:50 PM Reply with quote
Ohhhh>>>>

What a sad and teasing topic you are touching. Ok if u want to know some thing about this from my little knowledge and thinkings, then i will surely reply u in detail later.
isfi22

PAKISTAN
Posted - Friday, July 23, 2010  -  11:29 AM Reply with quote
محترم آنٹی جان، سب سے پہلی اور بنیادی بات تو یہ ہے کہ یہ بہت ہی اہم، کلیدی اور نازک و حساس ترین موضوع ہے جو آپ نے چھیڑ دیا اور مجھے ہلادیا ہے۔ اس حوالے سے میں تو جب سوچتا یا کسی عمل و واقعے کو دیکھتا ہوں، سچی بات ہے کہ دل جل کر اور روح لرز کر رہ جاتی ہے۔ انسان غور نہیں کرتا کہ وہ ہے کیا، کہاں سے اس کی ابتدا ہوتی اور پھر کس طرح درجہ بدرجہ وہ ارتقا کے عمل سے گزر کر کیا سے کیا ہوجاتا ہے۔ بیج سے ایک پورا باغ وجود میں آجاتا اور رائی کا بے حیثیت ذرہ ایک شاندار و باعظمت پہاڑ کی شکل میں ڈھل جاتا ہے۔ ایک ناتواں اور لاچار و بے بس وجود کس طرح کچھ ہی عرصے میں قابلیت و لیاقت، کمال و مہارت، خوبصورتی و دلکشی، عظمت و رفعت اور حیرت انگیز طاقت و قوت کا مالک بن کر قدرت کے ایک شاہکار نمونے کا روپ ڈھار لیتا ہے۔ انسان نہیں سوچتا کہ اس سارے عمل میں سواے خدا کے کسی اور کا ہاتھ اور فضل و کرم اس کے شاملِ حال نہیں ہوتا۔ یہ خدا ہی کی ہستی ہے جو اسے وجود بخشتی اور پھر اس کی تمام ضروریات اور اس کی نگہداشت و پرورش کا آسمان و زمین اور اس کائنات میں ہر طرف پھیلے لائف سپورٹ سسٹم کے ذریعے سامان کرتے ہوئے اسے ایک باکمال و توانا و شاندار حیثیت و مقام کے حامل مکمل انسان کے درجے پر فائز کردیتی ہے۔ اس سارے وقفے میں اور پھر اس کے بعد زندگی کے آخری لمحے تک انسان کو جو کچھ درکار ہوتا ہے وہ ایک خداے ذوالجلا کے علاوہ کوئی دوسرا اسے نہیں دیتا بلکہ انسان کو جو کچھ ملتا ہے خدا ہی کی عنایت و رحمت سے ملتا ہے۔ وہ کھانا اور پانی بھی اسی سے پاتا ہے، ہوا اور بارش بھی وہی دیتا ہے اور اس کے علاوہ جو آسمانی یا زمینی یا کائناتی ضرورت انسان کو لاحق ہوتی ہے وہ خدا ہی کے نظامِ قدرت کے تحت اسے ملتی اور اس کی تکمیل و تسکین کا سبب بنتی ہے۔ ایک خدا کے علاوہ اس دنیا میں نہ کسی کو کوئی اختیار و اقتدار حاصل ہے اور نہ کسی کے پاس کچھ ہے جو وہ کسی کو دے سکے۔ ماں کے پیٹ کی اندھیری کوٹھری میں جس طرح وہی پرودگار انسان کا پالنہار اور محافظ و نگہبان ہوتا ہے ایسے ہی اس دنیا میں قدم رکھنے کے بعد بھی آخری سانس تک وہی اس کی ربوبیت و پرورش کا ذمہ دار و بندوبست کار ہوتا ہے۔ یہ اتنے واضح اور روشن حقائق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے مشرکین کے حوالے سے قرآن گواہی دیتا ہے کہ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان و زمین کا رب کون ہے؟ اور کون آسمان سے پانی برساتا اور زمین سے غلہ اگاتا ہے تو وہ برملا یک زبان ہوکر جواب دیں گے کہ اللہ ہے جو یہ سب کرتا ہے۔ یہ سب اسی کی قدرت و رحمت کا کرشمہ ہے۔


ہم مسلمان نماز میں سورۂ فاتحہ میں اسی حقیقت کا اعتراف الحمد للہ رب العٰلیمن کے کلمے سے کرتے ہیں کہ سارے عالموں کا رب اور پرورش کنندہ وہی ہے، ساری حمد و تعریف، شکر و سپاس، بڑائی و بزرگی اور ممنونیت و احسان مندی اسی کے لیے ہے۔ وہی آسمان و زمین کے تمام خزانوں اور طاقتوں کا مالک ہے اور روزِ جزا بھی سارے اختیارات اسی کے پاس ہوں گے۔ لہٰذا ہم نہ عبادت کسی اور کی کرسکتے ہیں اور نہ اس کے علاوہ کسی سے کوئی مدد مانگی جاسکتی، امید باندھی جاسکتی، توقع لگائی جاسکتی، فریاد کی جاسکتی اور نہ مشکل و پریشانی میں اس کے سوا کسی دوسرے کو پکارا جاسکتا ہے۔ اس کائنات میں اس کے علاوہ کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہے جو ان اوصاف و خصوصیات کی حامل ہو اور اس سے کسی طرح کی مدد اور حاجت روائی کی توقع کی جاسکے۔ انسانی زندگی میں خدا نے جو نظامِ اسباب قائم کیا ہے اس کے باہر کسی سے کسی قسم کی مدد کی امید رکھنا، فریاد کرنا، کسی نعمت و خوشی و مشکل کشائی و حاجت روائی کو کسی دوسرے سے منسوب کرنا اور کسی جاندار و بے جان یا زندہ وو مردہ یا پیغمبر و فرشتہ ہستی سے کسی قسم کی امید رکھنا اور فریاد و گزارش کرنا کھلا کھلا شرک اور خدا کی توحید پر ایک ناجائز و ناروا حملہ ہے۔ سچے ایمان کے ساتھ ایسے کسی عقیدے اور عمل کا جمع ہونا سراسر ناممکن ہے۔


اگر ایمان کے دعوے اور اسلام سے وابستگی کے اعلان کے باوجود کسی کے ہاں اس طرح کا کوئی عقیدہ و عمل موجود ہے تو یہ اس بات کی آخری درجے میں کھلی شہادت ہے کہ اسے کوئی غلطی لگی ہے اور کسی کوتاہی نے اسے اس نجاست میں ملوث کردیا ہے۔ ایک حقیقی مؤمن سے کسی بھی درجے میں یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ خدا کے علاوہ کسی دوسرے کو مشکل وقت میں پکارے، کسی پریشانی میں کسی پیر فقیر یا شیخ و صوفی کی دہائی دے، اس سے مدد مانگے، فریاد کرے اور اسے اسباب سے ماورا اس کی فریاد رسی و حاجت روائی کی قدرت و طاقت کا حامل جانے۔ سارا قرآن اس طرح کے اوہام و رسومات کی تردید و بطلان سے بھرا ہوا ہے۔ تمام پیغمبر جس مشترک مشن کو لے کر انسانیت کے پاس آئے وہ یہی تھا کہ ایک اللہ واحد کی عبادت کرو اور اس کے سوا کسی دوسرے کی بندگی مت کرو۔ وہی تنہا تمہارا پرودگار و کارساز ہے اسی سے لو لگاؤ، امید باندھو اور اپنی توقعات وابستہ کرو۔ اسے سے محبت کرو اور اسی سے ڈرو۔ اپنے تمام اندیشے اور آرزوئیں اسے سے وابستہ کرو۔ توحید پر یہی ایمان و عمل ان کی دعوت کی اساس و بنیاد اور مرکز و محور ہے۔ ان کی ساری زندگی اور ان کے پیروکاروں کی بھی ساری زندگیاں اسی سبقِ توحید کا عملی درس و نمونہ ہیں کہ اس کائنات میں ایک خدا کے سوا کوئی دوسرا نہ پوجنے لائق ہے اور نہ مدد طلبی و فریاد گزاری لائق۔ انسان کی ساری تعظیم و تقدیس، تسبیح و تحمید، تکبیر و تمجید، نذر و نیاز، وفاداری و بے قراری، خشوع و خضوع، لپک و چاہت، محبت و خشیت اور نیازمندی و جاں سپاری اپنے پرودگار ہی کے لیے ہونی چاہیے۔ اس کی روح کے سارے ولولے اور جذبات کی سارے ارتعاش اور احساسات کی ساری بے تابیاں اور جوش و جذبے کے تمام ذخیروں کا مرکز و محور اس کے رب کی ذات ہونی چاہیے۔


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ابتداے انسانیت سے جب انسانوں کو یہ درسِ توحید پوری وضاحت و شان کے ساتھ دیا جاتا اور پھر بار بار اس کی تجدید کی جاتی رہی ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ انسان پچھلی تاریخ کے مختلف ادوار میں بھی یہی کرتا رہا ہے اور اس دورِ حاضر میں بھی نہایت کثرت کے ساتھ غیر خدائی آستانوں اور غیر خدائی ہستیوں سے لو لگاتا، منتیں مانگتا اور اپنی امیدیں وابستہ کرتا ہے۔آخر یہ شرک اور مشرکانہ اوہام و عقائد اور رسومات و معمولات کیوں اس درجہ قوت کے ساتھ حیاتِ انسانی کا لازمہ و حصہ بنے رہے ہیں۔ اس بات پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں یہ انسان کی محسوس پرستی کا نتیجہ ہے۔ انسان ہمیشہ سے خدا کو ڈیفائن کرنے اور اپنی سوچ و تصور کی گرفت میں لانے کا خوگر رہا ہے۔ اس کی یہ شدید خواہش رہی ہے کہ اس پر مہربان و کریم ہستی کا کوئی ظاہری بت یا علامت ہو جس سے وہ اپنے جذبات کی تسکین کرسکے۔ جس سے لپٹ کر وہ رو سکے، اپنا دکھڑا سنا سکے، اپنی فریاد پیش کرسکے اور اپنے جذباتِ عقیدت و محبت نچھاور کرسکے۔ اس نے ہمیشہ خدا کو اپنے اوپر قیاس کرنے اور اپنی ہی طرح کے تصورات و قیاسات اس سے منسوب کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی اس کی وہ غلطی ہے جس سے تمام مشرکانہ اوہام و عقائد اور رسوم و روایات جنم لیتے رہے ہیں۔ ساری تاریخِ شرک کا مطالعہ کرکے دیکھ لیجیے آپ کو اس کی تہہ میں یہی نادانی پر مبنی خواہشِ انسانی اور اس کے کرتوت و کارستانیاں کرفرما نظر آئیں گے۔ سورۂ اخلاص میں توحید کا جو بیان اور خدا کی جن صفات کا تذکرہ ہے وہ کیا ہیں انہی تصورات کی تردید اور ان کے بالمقابل خدا کے باب میں درست خیالات کا اظہار۔ وہ تنہا ہے یعنی کوئی اس کا ساتھی، شریک و رفیق، مددگار و اسٹٹنٹ یا ہیلپر و معاون نہیں ہے۔ وہ تنہا و اکیلا ہے۔ وہ بے نیاز و ستودہ صفات ہے۔ یعنی وہ کسی کا محتاج و حاجت مند نہیں ہے لیکن اس کائنات میں سب کا سہار وہی ہے اور کوئی نہیں جو اس کی بارگاہ میں محتاج و نیاز مند نہ ہو۔ اس کی رحمت و شفقت کا ضرورت مند نہ ہو۔ وہی سب کا پالنہار، پرودگار اور آسرا و جاے پناہ ہے۔ وہ نہ کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کی اولاد ہے۔ یعنی وہ نسل و خاندان کے عارضے سے بلند و بالا ہے۔ کوئی اس کے خاندان و قوم کا فرد نہیں ہے، کوئی اس کا سگا اور رشتہ دار نہیں ہے۔ کوئی اس کی پارٹی اور قبیلے کا باسی نہیں ہے۔ اور کوئی اس جیسا نہیں ہے، نہ ذات میں نہ صفات میں اور نہ حقوق و کمالات میں۔ وہ سب سے الگ، سب سے بلند اور سب سے جدا و منفرد ہستی اور مقام و حیثیت کی حامل ہستی ہے۔ وہی اکیلا معبود اور تنہا مالک و خالقِ کائنات ہے۔ ساری مخلوقات اسی کی پیدا کردہ اور اسی کی نظرِ کرم کی محتاج ہیں۔ وہی ہر ایک کا رب اور ولی و کارساز ہے۔ نہ اس کے علاوہ عبادت کسی دوسرے کی ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی دوسرے سے کسی قسم کی کوئی مدد مانگی جاسکتی اور فریاد گزرانی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی کو کوئی زور و اختیار اور طاقت و قدرت حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کی آئی مشکل ٹال دے، بلا دور کردے اور اسے آفت و پریشانی سے نجات و خلاصی دلادے۔ وہی حاجت روا، مشکل کشا، غریب و بندہ نواز اور داتا و گنج و مراد بخش ہے۔ وہی عالم الغیب اور وہی دافع الامراض ہے۔


انسانوں کا شروع سے یہ معاملہ رہا ہے کہ وہ خدا کو انسانی بڑوں پر قیاس کرکے اس کے ساتھ ایسی باتیں، خیالات، عقائد اور تصورات منسوب و متعلق کرتا رہا ہے جو انسانی بڑوں کے لیے تو موزوں ہوسکتے ہیں لیکن خدا کی ذات و صفات سے بالکل میل نہیں کھاتے اور اس کی ہستی سے بالکل ہی فروتر و غیر متعلق ہیں۔ جس طرح انسانوں کے یہاں سفارشی اور مقربین ہوتے ہیں اسی طرح انسان خدا کے ہاں سفارشی اور اس کی بارگاہ میں مقبول و معزز ہستیوں کا تصور تراشتا اور پھر اپنے بزرگوں اور قومی اکابرین یہاں تک کہ فرشتوں اور پیغمبروں تک کو اس زمرے میں شامل کرکے انہیں خدا کا ساجھی، مقرب، مقبول اور اس کی بارگاہ میں شافع و مددگار بنالیتا ہے۔ اسی زمرے میں وہ ان بزرگوں، صوفیوں اور پیروں کو بھی کھڑا کردیتا ہے جن کی عبادت گزاری اور بلند اخلاقی، زہد و تقویٰ اور دنیا سے بے رغبتی اور خلقِ خدا کی خدمت کے کام وغیرہ کارنامے اس کے دل میں ان کا تقدس اور عظمت قائم کردیتے ہیں۔ وہ انہیں بھی خود سے الگ اور بالا ہستیاں اور خدا کی بارگاہ میں مقبول و سفارشی اور اثر و رسوخ کی حامل ہستیاں قرار دے لیتا اور پھر ہوتے ہوتے ان سے مدد مانگنے، انہیں وسیلہ بنانے اور ان سے اپنی حاجات طلب کرنے اور دعائیں اور فریادیں کرنے تک کے معمولات وابستہ کرلیتا ہے۔ اس طرح ان کی نسبت سے وہ تمام خیالات و تصورات اور معمولات و رسومات ایجاد ہوتے چلے جاتے ہیں جو ایک خدا ہی کا حق اور حصہ ہیں۔ انسان انہیں اپنے بزرگوں اور صوفیوں میں بانٹتا پھرتا اور خدائی تعلق کے سارے مظاہر ان سے منسوب و متعلق کرچھوڑتا ہے۔ پھر ان صوفیوں اور پیروں کے آستانے خلقِ خدا کے ہجوم و اژدحام کا مرکز اور ان سے دعا و فریاد و استمداد شیوۂ مسلمانی بن جاتا ہے۔


قرآن اور پیغمبروں کی دعوت اور ان کی ساری زندگیاں انہی گمراہیوں کے رد اور ان کے حوالے سے انسانوں کو بیدار و متنبہہ کرنے سے معمور ہے لیکن انسان کی کوتاہ بینی، دناءت، محسوس پرستی اور ظاہر بینی اور پھر اس کے کھلے دشمن شیطان کی وسوسہ اندازیاں اور فریب کاریاں اسے بار بار حق کی راہ سے ہٹادیتی اور پھسلاڈالتی ہیں۔ وہ شیطان کی سجھائی تاویلات اور اس کی ملمع کاریوں کا شکار بن جاتا اور حق کے نام پر باطل اور توحید کے نام پر شرک کو اپنا اوڑھنا بچھونا بچھالیتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ شیطان نے انسان کے بارے میں جو مہلت طلب کی اور اپنے جس عزم و جزم کا اظہار کیا تھا کہ میں اسے سیدھی راہ سے ہٹاکر چھوڑوں گا، وہ راہ کوئی اور راہ نہیں توحید ہی کی راہ ہے۔ شیطان انسان کو ہزاروں فریبوں، فلسفوں اور تاویلوں کے ذریعے گمراہ کرتا اور توحید کے راستے سے ہٹاکر شرک و گمراہی کی پگڈنڈیوں میں برگشتہ و سرگرداں کردیتا ہے۔ پھر انسان خواہی نا خواہی آخرت میں نجات پانا چاہتا ہے۔ وہ آخرت کی رسوائی، ذلت اور عذاب سے بچنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے لیے جو شرائط پوری کرنا لازم اور زندگی کو جن حدود اور پابندیوں کا لحاظ کرکے گزارنا ضروری ہے، وہ اس کے لیے تیار نہیں، لہٰذا اس راستے سے بھی انسان یہ ضرورت محسوس کرتا اور شیطان اس کے اس خیال کو مہمیز لگاتا ہے کہ وہ خدا کے مقرب تراشے اور انہیں اپنا سفارشی اور پناہ دہند باور کرے۔ وہ یہ خیال کرکے اطمینان سے اپنی مرضی پر چلے اور زندگی بھر من مانی کرے کہ خدا کے ان ان مقرب و مقبول بندوں کا دامن تھام اور ہاتھ پکڑ کے میں نے اپنی نجات و بخشش کا بڑا مضبوط و یقینی سامان کرلیا ہے، لہٰذا اب کسی فکر اور اندیشے کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کہیں پکڑ ہوبھی گئی تو یہ ولی اور صوفی اور فقیر و شیوخ، جن کی عقیدت کا ہم دم بھرتے، جن کے نام کی نیازیں چڑھاتے اور جن کے مزارات اور آستانوں پر سراپا عاجزی و عقیدت بن کر ہم حاضریاں اور چڑھاوے دیتے ہیں، یہ ہمیں بچا اور چھڑالیں گے اور ان سے نسبت کی بدولت ہمیں کسی پریشانی اور شرمندگی اور عذاب کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔


ایسے ہی دوسرے بھی بہت سے اسباب ہوتے ہیں جو انسانوں کو شرک اور طرح طرح کی اعتقادی گمراہیوں میں مبتلا کرتے اور شاہراہِ توحید سے ہٹادیتے ہیں۔ حالانکہ توحید وہ قیمتی اور اہم ترین عہد ہے اور خدا کا ایسا واضح حق ہے کہ جس کی خاطر پیغمبروں نے اپنے مخالفین کی طرف سے بے تحاشا اذیتیں برداشت کیں، اپنے سر قلم کروائے، گھر بار چھوڑا، قوم و قبیلے کی دشمنیاں مول لیں، جان و مال اور عزت و خاندان کو خطروں کا نشانہ بنوایا، ہر طرح کا ظلم و جبر اور جور و ستم برداشت کیا، پیاروں اور عزیزوں کی قربانیاں دیں اور ہر طرح کی تکلیف و پریشانی کا خندہ پیشانی کے ساتھ سامنا اور مقابلہ کیا۔ اپنوں کی جان دینے کا وقت آیا یا توحید سے بغاوت کے باعث جان لینے کا مرحلہ، وابستگان توحید کے قدم کبھی نہیں لڑکھڑائے اور ان کے عزم و ارادے میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی۔ خدا کے وفادار بندوں کی تمام تر تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ وہ ہمیشہ خدا ہی کے پرستار و فرماں بردار رہے، انہوں نے اپنے سر اور پیشانیاں ہمیشہ اسی کے روبرو جھکائیں، ان کے ہاتھ اور جھولیاں صرف اسی کے سامنے پھیلیں، انہوں نے ہمیشہ مشکل و پریشانی میں اسی کا دامن تھاما اور اسی کی چوکھٹ پر دستک دی۔ خدا کے علاوہ ان کے دل میں کسی اور کی عظمت و تقدس کا نقش کبھی قائم نہیں ہوا۔ ان کا مرنا اور جینا اور نماز اور قربانی سب کچھ خدا ہی کے لیے ہوتا تھا۔ ہم بھی اگر خدا کے انعام یافتہ بندوں کی صف میں شامل ہونا اور ابرار و صالحین کے زمرے میں قیامت کے دن اٹھنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی توحید سے سچی وابستگی اور اس کے منافی ہر عقیدے، تصور، عمل اور رسم سے براءت و قطع تعلقی اختیار کرنا پڑے گی۔توحید اور اس سے وابستگی اور اس کی خاطر جینے مرنے سے زیادہ محبوب و مرغوب شے ایک مؤمن کے لیے اس دنیا میں کوئی دوسری نہیں۔


آج جو ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے ماننے والے اور مسلمان کہلانے والے آستانوں اور مزارات پر ہجوم کرتے اور وہاں جاجا کے منتیں مانگتے اور نذریں چڑھاتے اور فریادیں اور دعائیں کرتے ہیں تو یہ کوئی اسلامی تعلیمات پر عمل اور سیرتِ رسول کا اعادہ نہیں ہے بلکہ کھلے اور واضح طور پر گمراہی کا ایک سیلاب ہے جس نے ان مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور وہ انہیں خس و خاشاک کی طرح بہائے لے جارہا ہے۔کیسے کیسے عبرت ناک مناظر اور شرم ناک افعال ہیں جو وہاں نہایت بے دردی سے انجام دیے جاتے اور دیکھے جاتے ہیں۔ ایک خداوند جو انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب، سراسر رحمت و شفقت ہے۔ پکارنے والے کی پکار سنتا اور اس کی فریاد کو پہنچتا ہے، اپنے بندوں کی دعائیں قبول فرماتا ہے، اس کو چھوڑ کر انسان اپنی پیشانیاں اور سر کس کس در پر جھکا رہے اور مردہ و بے زور و طاقت ہستیوں سے اپنی مشکل کشائی و حاجت روائی کی امیدیں جوڑ رہے ہیں۔ وہ جنھوں نے ایک تنکا اور مکھی کو بھی پیدا نہیں کیا وہ کیا انسان کی مدد کرسکتے اور اس کی پریشانی دور کرسکتے ہیں۔ وہ تو اپنے اوپر بیٹھنے والی ایک حقیر و معمولی مکھی کو بھی ہٹانے کی قدرت نہیں رکھتے۔ وہ بھلا انسانوں کی کیا فریاد رسی کریں گے۔ یہ سب ان کے اوہام اور خام خیالیاں ہیں اور یہ سب مشرکانہ مظاہر ہیں۔ مسلمانوں کے ان کا ارتکاب کرنے سے وہ کوئی دین ایمان اور اسلام کا حصہ نہیں بن جاتے۔ اسلام ان ساری چیزوں سے بری اور بیزار ہے۔ ایسا انسان اتنی موٹی سی عقل کی بات نہیں سمجھتا کہ ایک معمولی اور نہایت حقیر ابتدا سے اسے ایک مکمل اور توانا و تندرست انسان بنانے والا اور اس دورانیے میں اس کی تمام حوائج و ضروریات پوری کرنے والا ایک خدا کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں تھا تو پھر اب اس کی بگڑی بنانے اور آخرت سنوارنے والا کوئی دوسرا کیسے ہوسکتا ہے۔ قرآن کا واضح اور دوٹوک اعلان ہے کہ قیامت کے روز نجات کسی کی سفارش اور تعلق و نسبت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان و عملِ صالح کے خدائی معیار پر ہوگی۔ کوئی کسی کو اس کی بداعمالیوں کی سزا سے بچا نہ سکے گا اور نہ کوئی کسی کی سفارش کرکے اس کے گناہوں کی معافی دلواسکے گا۔ محض خدا کی رحمت ہوگی جو کسی کا سہارا اور پناہ بنے گی اور وہ اسی کے حصے میں آئے گی جو توحید سے وابستہ رہا ہوگا اور نیک اعمال کرتا رہا ہوگا۔ باقی رہے جو اپنے پیروں، صوفیوں اور سفارشیوں کے اعتماد و بھروسے پر من مانیاں اور بدکاریاں کرتے اور شر و فساد و طغیان کے طوفان مچاتے رہیں ہوں گے وہ وہاں برباد و ہلاک ہوکر رہ جائیں گے اور کوئی ان کی مدد اور سفارش کرنے والا نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح کے چھپے اور کھلے شرک سے محفوط رکھے اور توحید سے وابستگی کے ساتھ حیات و ممات عطا فرماے۔


اس سلسلے میں مولنا امین احسن اصلاحی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب حقیقتِ شرک و توحید کا مطالعہ بہت مفید رہے گا۔ ہمارے میگزین اشراق دعوہ کا ایک آرٹیکل بھی اس سلسلے میں مطالعے لائق ہے جسے ذیل میں آپ کے لیے نقل کررہا ہوں:


"توحید اور مراسمِ عبودیت


توحید اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے ۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر اسلام کی تعمیر ہوتی ہے ۔ اور یہی وہ اساسی تصور ہے جس کے دل میں راسخ و پیوست ہونے کے بعد کسی شخص کی زندگی اسلامی زندگی میں اور اس کی شخصیت مؤمنانہ شخصیت میں ڈھلنا شروع ہوتی ہے ۔ قرآن کریم میں ایسے کئی مقامات ہیں جہاں اہم ترین اور بنیادی اہمیت رکھنے والے اسلامی اخلاق و اعمال کی تلقین کرتے ہوئے ، ان ہدایات کی ابتدا بھی توحید کی تعلیم سے کی گئی ہے اور اسے ختم بھی توحید سے وابستہ رہنے کی تاکید پر کیا گیا ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ توحید اسلامی اجزا کے لیے بمنزلہ اُس لڑ ی کے ہے جس میں دانے پروئے جاتے ہیں ۔ جس طرح لڑ ی کے نہ ہونے یا ٹوٹ جانے سے دانے منتشر ہوکر اور بکھر کر رہ جاتے ہیں اسی طرح توحید کے بغیر یا اس میں شرک کی آمیزش کر کے انسان اپنی زندگی میں اسلامی آداب و اخلاقیات اور ایمانی اعمال و ارکان کو محفوظ و برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اور سب سے بڑ ھ کر یہ کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے توحید ہی وہ اصل کسوٹی اور معیار ہے جس پر پرکھ کر لوگوں کی جنت اور جہنم کا فیصلہ کیا جائے گا۔


توحید کے باب میں ایک گمراہی تو یہ پیدا ہوتی ہے کہ آدمی سرے سے اس بات کا انکار کر دے کہ اس کا اور اس پھیلی ہوئی کائنات کا کوئی خالق و مالک اور منتظم و مدبر ہے ۔ وہ کائنات کو ایک خودکار کارخانہ اور اپنے آپ کو ایک شترِ بے مہار فرض کر لے ۔ اسی طرح ایک دوسرا رویہ یہ ہے کہ آدمی خدا کو ماننے کے ساتھ ساتھ دوسرے خداؤں کو بھی مانے اور خدا کی خدائی میں ان کا بھی حق اور حصہ تسلیم کرے ۔ اس رویے میں بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان خدا تو ایک ہی ہستی کو مانتا ہے مگر اس کے مقربین اور محبوبین کے نام پر فرشتوں ، جنوں اور اپنے بزرگوں کو بھی بہت سے خدائی حقوق اور اختیارات کا حامل قرار دے لیتا ہے ۔ پھر وہ نذر و نیاز اور چڑ ھاو وں کے نام پر ان کی نسبت سے بہت سے اعمال، مراسم اور طریقے ایجاد کرتا اور ان کی پیروی کرتا ہے ۔ یہ، مقربین اور مقبولانِ بارگاہ کی نسبت سے ایجاد کردہ رسمیں آہستہ آہستہ اگلی نسلوں میں مقدس مذہبی روایت بنتی چلی جاتی ہیں ۔ اور پھر مذہب کے نام سے ان کے درمیان جو چیزیں رہ جاتی ہیں وہ انہی رسموں کے نام کی دھوم دھام ہوتی ہے ۔ اصل مذہب اور اس کی تعلیمات و عبادات پس پشت چلی جاتی اور ہوتے ہوتے بالکل ہی نظر انداز ہوجاتی ہیں ۔


جس طرح دوسرے مذاہب کے ماننے والے اپنے ان جھوٹے معبودوں کو خوش کرنے اور ان کی عبادت و بندگی بجالانے کے لیے آداب و مراسم مقرر کرتے ہیں ۔ آج اسی طرح مسلمانوں نے اپنے بزرگوں کی نسبت سے رسوم و آداب کی ایک پوری شریعت بنارکھی ہے ۔ بزرگوں کے مزارات، ان پر جانے کے آداب، نذر و نیاز کے ایام اور طریقے ، ان کے تذکروں کی محافل اور ان سے استمداد و توسل کے طریقے ۔ گویا کہ ایک پورے کا پورا دین اور شریعت ہے جو اللہ کے نیک بندوں کے نام پر ایجاد کر لی گئی ہے ۔ پھر بزرگوں اور اولیا کی نسبت سے عجیب و غریب تصورات اور کرامات بیان کی جاتی ہیں ۔ ان سے فریادیں کی جاتی اور دعائیں مانگی جاتی ہیں ۔ حالانکہ یہ سب کچھ شرک و بدعت کے زمرے میں آتا ہے ۔ اور خدا کے دین میں ایسی باتوں کی کہیں کوئی تعلیم نہیں دی گئی۔ لیکن مسلمانوں کی جسارت ہے کہ آج وہ یہ سب کچھ کر رہے ہیں اور دین کے نام پر اور توحید سے وابستگی کے دعو وں کے باوجود کر رہے ہیں ۔


توحید اور اسلام سے سچی وابستگی کا تقاضا اور خدا کی ابدی بادشاہی خدا کی جنت کو پانے کی لازمی شرط یہ ہے کہ ان تمام شرکیہ اوہام و اعمال سے بچا جائے ۔ صرف اور صرف خدا ہی کو اپنا کارساز و مشکل کشا مانا جائے ۔ اسی کے در پہ سر جھکایا اور پیشانی ٹیکی جائے ۔ اپنی حاجات اسی سے مانگی جائیں اور ہر مشکل میں اسے ہی پکارا جائے ۔ وہی اکیلا سارے اختیارات کا حامل اور تمام خزانوں کا مالک ہے ۔ ماں کے پیٹ سے لے کر زندگی کی آخری سانس تک وہی ہے جو انسان کو پالتا اور اس کی تمام ضروریات میسر کرتا ہے ۔ لہٰذا انسان کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ بس اُسی سے لو لگائے ۔ اُسی سے دڑ ے اور دل و جان سے محبت کرے ۔ اپنی عبدیت اور نیاز مندی کے تمام جذبات اور سرفروشیاں اُسی کی بارگاہ میں پیش کرے ۔ اور اپنی ساری زندگی اُسی کا نیازمند و تابع فرمان بن کر رہے ۔"
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Friday, July 23, 2010  -  12:37 PM Reply with quote
how true and well written, it is the common man who is most affected, why because lack of knowledge and faith, all his life he is treated like nothing a piece of dirt to be ignored and kicked away, his and his family's life is worth nothing.
He is born by default brought up with nothing no values no knowledge and with a sense of worthlessness he will see people die from the smallest of ailments due to lack of knowledge and funds he will see cruelty and no justice he will see luxury from far and learn from a very early age it is not for him, he will accept suffering as his future, he has no will or desire to change because for him it is beyond his capability. so for this man who he worships does not matter, he is convinced that this is it, so for him to hang a taweez in his neck and asking a peer and sacrificing in another's name is no different than praying to Allah and only asking him to fulfill his needs.
Then are the people who are stuck in tradition and for them rituals are everything and the more showy and elaborate the more salvation is for them, among them are the people who are earning but not through Halal means so they feel these rituals and money spent in the name of Allah also will buy them salvation. look what happens at Bakra eid the animals imported and sold for lacs a cow worth 5 lacs and people buy them. These are the people who have money and power on their heads and there is a value to everything even Ibadet.
Sanwal

INDIA
Posted - Friday, July 23, 2010  -  5:48 PM Reply with quote
Qura’n 22: 31,.
Being upright for Allah, not associating aught with Him and whoever associates (others) with Allah, it is as though he had fallen from on high, then the birds snatch him away or the wind carries him off to a far-distant place.
isfi22

PAKISTAN
Posted - Saturday, July 24, 2010  -  8:28 AM Reply with quote
محترم آنٹی صبا ٹو اور محترم بھائی ساول، آپ کے کمنٹس کا بہت بہت شکریہ۔ آنٹی آپ کا تجزیہ بہت درست ہے کہ فکر و عمل کی گمراہیوں کے باب میں زیادہ شکار و نشانہ عام آدمی ہی بنتا ہے کیوں کہ نہ تو اس کے پاس زیادہ علم ہوتا ہے اور نہ اس کے مسائل اور دقتیں اسے اپنے گرداب سے نکل کر سوچنے، غور کرنے، ماحول کے رسم و رواج کا تجزیہ کرنے اور آبائی و خاندانی و قومی روایات کا اندر اتر کر جائزہ لینے کا موقع دیتے ہیں۔ یہ ایک نہایت واضح اور عام طور پر دیکھے جاسکنے والی حقیقت ہے، کم از کم ہمارے ملک کی حد تک، کہ ہمارا عام آدمی بڑی ہی کسمپرسی اور بے یاری و مددگاری کے حالات میں نہایت مشکل و کٹھن زندگی گزارتا ہے۔ اس کے وسائل و حالات اسے علم کے سرچشموں سے فیضیاب ہونے اور زندگی کی ضروریات فراہم کرنے کی جاں گسل و ہمہ گیر جدوجہد اسے فرصت و آرام سے مسائل و حقائقِ حیات پر غور کرنے کا موقع و وقت ہی نہیں دیتے۔ ان حالات میں وہ بس اپنے ماحول اور خاندان کی روایات اور پچھلوں سے چلے آتے چلنوں اور ریتوں کا غلام اور اندھا بہرا پیرو اور مقلد بن کر رہ جاتا ہے۔ یہی وہ ذریعہ ہے جس کی بدولت ہم اپنی سوسائٹی میں اسلام کے درجنوں ایڈیشن دیکھتے ہیں۔ جس کو اپنے ماحول سے اسلام کے نام و عنوان سے جو تعلیمات و رسمیات ملی ہوتی ہیں وہ اسی سے چمٹ جاتا اور انہی کو اسلامی سرمایے کا نام دے کر زندگی ان کے نام کردیتا ہے۔


پھر ہمارے جیسی سوسائٹی جس میں لیڈر اور پیشوا وہ حضرات ہوں جن کی مفاد پرستی اور ہوس کسی حد پر رکنا نہ جانتی ہو اور جن کے لیے اقتدار و مناصب ذمہ داری و خدمتِ عوام کا عنوان ہونے کے بجائے لوٹ مار اور کرپشن کی چاندی مچانے کا بہانہ ہوں۔ اور جن کا فائدہ اور مطلب اسی سے وابستہ ہو کہ لوگ جاہل و گنوار رہیں اور اپنی زندگی کو باقی رکھنے کے جہاد و مشقت میں اس درجہ الجھے رہیں کہ ان کی عیاشیوں اور کمینہ رویوں پر کوئی انگلی اور اعتراض نہ اٹھا سکے۔ ایسی سوسائٹی میں جہالت، توہم پرستی، سفلہ پن اور بڑوں بزرگوں کی پرستش و اندھی تقلید اور پیر پرستی و صوفی مستی جیسی بیماریاں نہیں پھیلیں گی تو پھر اور کیا ہوگا۔ اس کے علاوہ بھی ہمارے بہت سے علم و فکر کے حامل لیکن شیطانی رجحانات سے مالا مال کرم فرما ایسے ہیں جو قرآن و سنت سے ان خرافات کے حق میں استدلال فرماتے اور دلائل کی قطاریں لگاتے ہیں۔ ان کا کام بس یہی ہے کہ دین کے نام پر لوگوں کو بے دینی کی خوراک دیتے رہو۔ اسلام کے نام پر لوگوں کو شرک و کفر کے مشروب پلاؤ اور خدا کی پرستش و بندگی سے ہٹاکر انہیں آستانوں اور مزاروں کے طواف و عقیدت میں مبتلا کرو۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ پیغمبروں کی امتوں میں جب جب شرک آیا انہی راستوں سے آیا کہ وہ اپنے نیک و صالح بزرگوں کی عقیدت کے غلو میں اس درجہ مبتلا ہوئے کہ انہیں اپنا معبود و خداوند بنا بیٹھے اور پھر ان کے درمیان ایسے رہنام اٹھے جو انہیں ان گمراہیوں کے حق میں دلائل فراہم کریں اور اس دلدل میں انہیں اور زیادہ پختگی و گہرائی کے ساتھ دھنسانے کے کارنامے انجام دیں۔


جو چیز ان امراض سے اقوام کو نجات دیتی اور نسلوں کو بچاتی ہے وہ صحیح علم ہے۔ تنقید و تجزیہ کا ایک قدر و روایت بن جانا ہے۔ اختلاف کا واقع ہونا اور اپنی حدود و قیود میں رہنا ہے۔ لوگوں میں درست خیالات کی ترویج کیجیے۔ ان کی غلط فکریوں پر زوردار تنقید کرکے انہیں ان کی غلطی و خامی سے آشنا بنائیے۔ ان میں اختلاف کرنےا ور اسے برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیجیے۔ ان میں تجزیہ و تنقید کی صلاحیت پروان چڑھائیے۔ پھر عوامی و سماجی فلاح و بہبود کے ایسے کاموں اور مشنوں کو فروغ دیجیے جو عمومی خوشحالی لائیں اور عام آدمی کو سہولتیں اور آسانیاں فراہم کریں تاکہ وہ بھی کچھ فرصت و آرام پائے اور زندگی کی ان زیادہ سنگین و برتر حقیقتوں کے بارے میں کچھ سوچ بچار کرسکے۔ پھر سب سے بڑھ کر قرآن و سنت کے زندہ و روشن کو عام فہم انداز میں خوب خوب عام کیجیے۔ لوگوں کو ان منابع و مراکز سے وابستہ و پیوستہ کرنے کی جدوجہد کیجیے۔ یہ وہ مصادر اور سرچشمے ہیں کہ ان سے سچی وابستگی کا نتیجہ علم و فکر کی راستی اور ہدایت تک رسائی ہی کی شکل میں نکلتا اور انسان کی فلاح و نجات کا سبب بن جاتا ہے۔
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Saturday, July 24, 2010  -  9:13 AM Reply with quote
Then why aren't Islamic groups into this kind of work they will organize dars collect funds to teach reading of Quran but not one will establish a group of volunteers to go and establish vocational centers, give their time to teach and to empower all this work is carried out by other organizations.
I am not saying what they are doing is not important but working in the social sector is also a responsibility that needs to be carried out.
isfi22

PAKISTAN
Posted - Saturday, July 24, 2010  -  9:43 AM Reply with quote
یہ کسی بڑے المیے اور شدید سانحے سے کم نہیں ہے کہ ہماری دینی و مذہبی جماعتوں نے عام آدمی کی معاشی فلاح و بہبود کے کاموں اور شعبوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی اور نہ کوئی اہم کارکردگی دکھائی ہے۔ حالانکہ آسانی سے سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ جس انسان کے گھر میں چولہا جلانے کے لیے لمبی چوڑی جاں گسل مشقتیں درکار ہوتی ہوں۔ پانی، بجلی، صحت اور تعلیم و علاج جیسی بنیادی ضروریات کی باسہولت فراہمی تو بہت دور کا معاملہ رہا کم از کم مکمل فراہمی ایک دور کا سہانا خواب بنا ہوا ہو، اُس سے آپ کیا یہ امید کرسکتے ہیں کہ وہ خدا و آخرت اور دین و مذہب جیسے حقائق کے معاملے میں کسی سنجیدہ و گہرے غور و فکر اور تگ و دو کے لیے متحرک و حساس ہوسکے۔ سوسائٹی میں ریفارم لانے والی کسی تحریک و مشن کا حصہ بن کر تگ و دو کرسکے۔ یقیناً نہیں۔ زندگی کی بنیادی ضروریات و سہولیات کی فراہمی کتنا زیادہ ضروری اور لازمی معاملہ ہے ہر حساس اور حقیقی انسان نہایت آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور جس کے گھر میں بچے بھوکے ہوں، پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو، بجلی گھنٹوں کے لیے روٹھ جاتی ہو، کوئی مریض اسباب نہ ہونے کے باعث درد و الم کی تصویر بنا پڑا ہو، ضروریاتِ زندگی کی فراہمی ناممکن معاملہ بن گئی ہو، ایسے شخص کی ذہنی منتشر و پریشاں خیالی کا کیسا گھناؤنا عالم ہوگا اور اس کی مذہبی و روحانی و اخلاقی کیفیت کس درجہ نحیف و بے جان ہوگی، اس کو سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ لوگوں کی مادی و معاشی فلاح و بہبود کے کاموں اور مشنوں کی اس وقت ہمیشہ سے زیادہ ضرورت ہے۔ قوم کی قوم افلاس، کسمپرسی، جہالت، محرومی اور مظلومیت و بے سہارگی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ کیا بھوکوں کو کھانا کھلانا، مریضوں کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنا، غریبوں، بے سہاروں اور ناداروں کی دستگیری اور مدد کرنا جیسے کام دینی تعلیم و ترغیب کا حصہ نہیں ہے اور کیا یہ وہ کام نہیں ہیں جن کی اہمیت و فضیلت ہمارے دین میں بیان کی گئی ہو۔ اس وقت بہت ضرورت ہے کہ ہماری منظم و فعال دینی و مذہبی تنظیمیں ان شعبوں میں بھی متحرک و سرگرم ہوں اور لوگوں کے دکھوں اور غموں کو بانٹنے اور ان کی تکلیفوں اور مشکلات کا کسی حد تک مداوا کرنے کی بھرپور اجتماعی کوششیں کریں۔


اس صورتحال کی وجہ دینی تعبیر کی کجیاں اور غلطیاں ہی ہیں۔ لوگ دین کے نام پر بس ایک کام جانتے ہیں کہ حکومت کا تختہ الٹنے اور مذہبی لوگوں کو اقتدار و طاقت کے مراکز پر قابض بنانے کی سرتوڑ کوشش کرو۔ حالانکہ معاشرے اور سماج کے پیمانے پر دین کا غلبہ عوامی پذیرائی کے نتیجے میں ظاہر و رونما ہوتا ہے۔ دین اپنے فکر کے پھیلاؤ اور اپنی تعلیمات کی برتری اور اپنی ہدایات کی نافعیت و برکات سے سوسائٹی کے اذہان کو مفتوح و مغلوب کرتا اور سماج کے طبقات میں اپنی جگہ بناتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے نتیجے میں اس کے حق و حمایت میں سماج میں لوگوں کی اتنی اکثریت و قوت وجود میں آجاتی ہے جو آپ اپنی آزاد و با اختیار مرضی سے اپنے اجتماعی نظام اور اجتماعی شعبوں میں دینی احکام و ہدایات کی پاسداری کو رواج دیتی اور نافذ کرتی ہے۔ دینی نظام یا دینی غلبہ نعروں اور مطالبوں اور احتجاجوں اور دھرنوں سے کبھی وجود میں نہیں آتا بلکہ سماجی فلاح و بہبود اور اپنے فکر و نظریات کی قوت و طاقت کے بل بوتے پر وجود میں آتا ہے۔ یہ فکر کی بہت بڑی ٹیرھ ہے کہ آپ الیکشن کی جنگوں اور نعروں اور دعووں کی سیاست کے سورما بن کر ان راستوں سے دین کو سماج میں غالب کرنے کے خواب دیکھیں۔ ایسے خواب پچھلی چھ دہائیوں سے بار بار چکنا چور ہوئے ہیں اور آئندہ بھی ملیا میٹ ہی ہوتے رہیں گے۔ اس عرصے میں اگر قوم کو تعلیم یافتہ بنانے اور اس کی زندگی کو پرراحت و آرامدہ بنانے کے میدانوں میں کام اور کوششیں سر انجام دی گئی ہوتیں تو اس کے آج کے حالات سے بہت کچھ بہتر و مفید نتائج برآمد ہوچے ہوتے۔ خیر جو ہوچکا سو ہوچکا۔ لیکن اگر اب بھی ہم انہی چٹانوں سے سر ٹکرا کر انہی تخیلات و رومانوی تصورات میں جیتے رہے تو پھر حالات کے بدلنے اور صورتحال میں کسی بہتری کے آنے کی کوئی توقع نری خام خیالی ہوگی۔
saba2
Moderator

PAKISTAN
Posted - Sunday, July 25, 2010  -  8:00 AM Reply with quote
So let me summarize religious organizations must take up economic /social uplift work so who is going to make them realize
" Who will bell the cat".
isfi22

PAKISTAN
Posted - Monday, July 26, 2010  -  8:30 AM Reply with quote
میری نہایت شفیق و محترم آنٹی صاحبہ، کوئی بھی اچھا اور مفید کام ہو اور سوسائٹی کی خدمت کا کوئی بھی نیا یا نظر انداز شدہ میدان ہو، جس کو اس کے بارے میں پہلے آگاہی حاصل ہو اور وہ اس باب میں کچھ کرنے کی لیاقت و صلاحیت اور استعداد ا استطاعت رکھتا ہو، اسے بلا توقف خدا کے بھروسے پر ابتدا کردینی چاہیے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں اور جن جن تک وہ اپنی بات پہنچا سکتا ہے، انہیں بھی اس کام و مشن کی طرف آنے اور اس معاملے میں اس کا دست و بازو بننے کی دعوت دے۔


ہم سب اپنے دین اور معاشرے کےلیے کچھ کرنا اور کسی نہ کسی پہلو اور جہت سے ان کی کوئی خدمت بجالانا چاہتے ہیں، لہٰذا ہمیں جہاں ان حلقوں اور جماعتوں کو اس سماجی فلاح و خدمت کے شعبوں کی طرف آنے کے لیے بیدار و خبردار کرنا ہے وہیں جتنی ہماری لیاقت و استطاعت ہے، اس کے بقدر ہمیں بھی ا س فیلڈ میں سرگرم و متحرک ہوجانا چاہیے۔ ٹی وی پر اکثر اس طرح کے سوشل ویلفیئر پروگراموں میں میں نے اس طرح کی تجاویز سنی ہیں کہ آپ مثلاً کسی ایک ہم قوم کو پڑھانے کا عہد کرلیں، کسی ایک مریض کے علاج کا خرچہ اپنے مال سے یا اپنی قریبی لوگوں میں توجہ دلاکر بہم مہیا کردیں۔ ہم اس طرح کے کاموں کو نہایت چھوٹا اور حقیر سمجھتے اور کسی بڑے اور نمایاں سطح کے کام کے منتظر رہتے ہیں کہ اس میں تعاون کریں گے حالانکہ اگر یہ چھوٹے چھوٹے کام بھی اپنی جگہ ہونا شروع ہوجائیں اور مختلف نوجوان اپنی اپنی چادر و حدود میں رہتے ہوئے اس طرح متفرق طور پر لوگوں کی انفرادی خدمت کے مختلف کاموں کو اپنا مشن بنالیں تو اس سے نہ صرف لوگوں کو مدد ملے گی بلکہ ان کے اندر امید و حوصلہ بھی پیدا ہوگا۔ انہیں محسوس ہوگا کہ اس معاشرے کے احساسات ابھی بالکل ہی مردہ نہیں ہوئے بلکہ کچھ لوگ ہیں جو حساس ہیں اور دوسروں کا درد رکھتے ہیں۔ ہمدردی، خدمت، ایثار، محبت و اپنائیت اور باہمی اعتماد و تعاون کی کتنی ہی قدریں اور روایتیں اس طرح قائم اور جاری ہوں گی۔


لوگ تو اس طرح کی محرومیوں کا بھی شکار ہوتے ہیں کہ کوئی ان کی دکھ بھری کہانی سننے والا نہیں ہوتا، کوئی ان سے مسکراکر پیار کے دو بول بولنے والا نہیں ہوتا۔ یہ تو وہ کام ہیں جو آپ سے ایک ڈھیلا بھی خرچہ نہیں مانگتے بلکہ محض آپ کے چند لمحات اور آپ کی خوش خلقی کی معمولی پھوار کا تقاضا کرتے ہیں۔ اپنے دل میں انسانوں کی محبت پیدا کیجیے۔ چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کا ادب کیجیے۔ غریبوں کو حدِ استطاعت سہارا دینے والے بنیے۔ دوسروں کے بے غرضانہ طریقے سے کام آنے والے بنیے۔ اور اگر فلاحِ معاشرہ کے حوالے سے کسی شعبے اور زاویے میں آپ کوئی ادارہ یا مشن کھڑا کرسکتے ہیں تو کھڑا کیجیے۔ لیکن محض فی سبیل اللہ کے جذبے اور پوری لگن و بیداری کے ساتھ اور نہایت اعلیٰ معیار پر۔ اعلیٰ معیار سے مراد بہت مہنگا مشن نہیں ہے بلکہ کارکردگی کا معیاری ہونا اور کارکنوں کا مستعد و ہوشیار ہونا مراد ہے۔


الغرض ہم میں سے ہر عام آدمی بھی اپنی جگہ رہتے ہوئے اور اپنے گرد و پیش میں سماجی خدمت کا کوئی نہ کوئی کام کرسکتا ہے۔ یہ سوچ کر کہ سماج کے بھلے میں سب کا بھلا ہے۔ اور انسانیت کی خدمت کرنا خدا کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ اپنی گلی کو صاف رکھیے۔ کچڑا روڈوں پر مت پھینکیے۔ راستے کی رکاوٹوں کو ہٹادیجیے۔ لوگوں سے مسکراکر خندہ پیشانی سے ملیے۔ مشکل و پریشانی میں کسی کے ساتھ کھڑے ہوجائیے۔ کسی بچے کے تعلیمی اخراجات میں تعاون کردیجیے۔ کسی مریض کے علاج و دوا کے پیسوں کا انتظام کردیجیے۔ کسی کی بات و شکایت کو متعلقہ افراد اور محکموں تک پہنچادیجیے۔ خوشی و غم کے مواقع پر لوگوں کو اپنی موجودگی اور ان کے شانہ بشانہ ہر طرح کی خدمت کے لیے حاضر ہونے کا احساس دلائیے۔ ایسے بے شمار کام ہر ایک کرسکتا ہے۔ دوسروں کے لیے دعا ہر ایک کرسکتا ہے۔ ان کے لیے اچھے احساسات ہر ایک رکھ سکتا ہے۔ ان کے لیے نیک تمنائیں رکھ سکتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو کم از کم یہ چھوٹے چھوٹے کام تو ضرور بالضرور کرنے چاہیں اور ان سب کاموں میں ہماری نیت محض خدا کی خوشنودی، انسانیت کی خدمت اور آخرت کے اجر کی ہونی چاہیے۔ نام و نمود کا کوئی جذبہ اور لوگوں کی شکرگزاری کی کوئی توقع یا بدلے میں ان کی ممنونیت کی کوئی خواہش جیسی کوئی چیز ہماری نیت کا حصہ نہیں ہونی چاہیے۔

Reply to Topic    Printer Friendly
Jump To:

<< Previous Page
1 2 3 4 5 6 7 8 9
Next page >>
Page 8 of 9


Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker