Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
مینو << واپس ہوم نیۓ مضامین سب سے زیادہ پڑھے جانے والے سب سے زیادہ ریٹ کیۓ جانے والے
ڈاکٹر فاروق کی شہادت پر جناب جاوید احمد غامدی کے تاثرات
مصنف: Amjad Mustafa  پوسٹر: admin
ہٹس: 3752 ریٹنگ: 0 (0 ووٹ) تاثرات: 0 تادیخ اندراج:   23 اکتوبر 2010 اس مضمون کو ریٹ کریں

 

جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے ساتھ خصوصی بات چیت۔

 

وہ قتل گاہوں میں شاخِ زیتون لے کے پھرتا رہا ہمیشہ

اگرچہ برسوں سے اپنے قابیل کے اِرادوں کو جانتا تھا

 

السلامُ علیکم سامعین۔

میں ہوں آپ کا میزبان : عمران یوسف۔

آج کا پروگرام جناب ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کی شہادت کے حوالے سے ہے۔  ڈاکٹر محمد فاروق خان معروف دانشور اور مذہبی سکالر تھے۔ بحث و مباحث میں نہایت متانت ، سنجیدگی اور دیانت داری کے ساتھ قرآن و سُنت کی بُنیاد پر اپنے نقطہ نظر کو پیش کرتے اور ہمیشہ دلیل کی زبان سے بات کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ اِس امر کے لیے تيار رہتے تھے کہ دلیل اور اِستدلال کی بنیاد پر ہی اُنہیں قائل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ معلوم حقیقت ہے کہ دلیل جہاں ناپید ہوتی ہے دشنام وہیں موجود ہوتی ہے۔ اُنہیں ایک عرصہ سے شدت پسند تنظیموں کی طرف سے مسلسل دھمکیاں دی جا رہی تھیں کہ وہ جہاد ، خود کش حملوں اور معصوم انسانوں کے قتل کے حوالے سے یا تو اپنی رائے کو تبدیل کرلیں یا انہیں بیان کرنے سے گریز کریں۔ اُن کے رُفقا کا بھی یہ اِصرار تھا کہ وہ کسی محفوظ علاقے میں مُنتقِل ہو جائیں لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کیا اور حق گوئي سے کام لیتے رہے اور آخرکار دلیل سے عاری ایک مخصوص گروہ نے ایک بُزدلانہ کاروائی کرکے گولی کی زبان سے اُنہیں ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔

ڈاکٹر محمد فاروق خان کی اِس المناک شہادت پر بات کرنے کے لیے آج ہمارے ساتھ ہیں ، جناب جاوید احمد غامدی صاحب۔

 

٭ السلامُ علیکم ، جناب جاوید احمد غامدی صاحب۔

٭ و علیکم السلام۔

 

٭غامدی صاحب ، ڈاکٹر فاروق آپ کے قریبی رُفقا میں سے تھے۔ آپ اُن کی شہادت پر کیا کہنا چاہیں گے۔

٭ ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب میرے عزیز بھائي تھے ، میرے دوست تھے ، ہمدمِ دیرینہ تھے ، کم و بیش بیس سال کی رفاقت تھی۔ لوگ اُن کے علم و فضل کا ذکر کریں گے ، اُن کی تصنیفات کا ذکر کریں گے ، اُن کی خطابت کا ذکر کریں گے ، اُن کی دینی خدمات کا ذکر کریں گے۔  اُنہوں نے اپنے صوبے میں تعلیم کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں اُن کا ذکر کریں گے اِس میں شُبہ نہیں کہ اِن سب باتوں میں وہ ہم سب کے ممدوح تھے لیکن جِس چیز نے مجھے ہمیشہ گرفتار کیے رکھا ، اُن کے معاملے میں ، وہ اُن کی انسانیت تھی۔  وہ کمالِ اِنسانیت کا بہترین نمونہ تھے۔  اُن کو جس شخص نے بھی قریب سے دیکھا ہے ، وہ یہ جانتا ہے کہ اُن کا حِلم ، اُن کی متانت ، اُن کی اِنسان دوستی ، اُن کے چہرے پر ہر لحظہ کھیلتا ہوا تبسم ، یہ اُن کی شخصیت کا نا گُزیر حِصہ بن چُکا تھا۔ اِس بیس سال کے عرصہ میں مجھے ایک دفعہ بھی ياد نہیں ہے کہ اُن سے کوئي شکایت پیدا ہوئي ہو یا اُن کے رویئے میں کوئي چیز اِنسانیت کے اعلیٰ مدارج کے خلاف محسوس کی ہو۔  وہ ہمیشہ اپنے معیار کو قائم رکھتے تھے۔  بات چیت میں ، گُفتگو میں ، معاملات میں ، وہ بڑی بُلند پایہ شخصیت تھے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اُن کا اصلی حُسن یہی تھا۔  اُنہوں نے جِس چیز کو حق سمجھا اپنی پوری زندگی اس کے لیے وقف کیے رکھی ہمیشہ امن کے پیغامبر رہے ، اپنی بات اِستدلال کے ساتھ کہتے رہے۔  ہمارا فکر جیسا کُُچھ بھی ہے ، اُس کو اُس اپنے علاقے میں عام کرنے کے لیے اُنکا غیر معمولی کِردار رہا۔ اُنہوں نے اس کی وضاحت کے لیے کتابیں لکھیں ، اُنہوں نے اس کی وضاحت کے لیے تقریریں کیں ، وہ سیمیناروں میں گئے ، وہ مجالس میں گئے اور پورے زور کے ساتھ ، پورے اِخلاص کے ساتھ ، پوری عزیمت کے ساتھ وہ ہمیشہ اِس حق کی دعوت دیتے رہے۔  وہ دعوتِ حق کے شہید ہیں۔  اُنہوں نے اِسی راہ میں اپنی جان قُربان کی ہے۔

یہ آپ جانتے ہیں کہ اِس موقع پر جب کہ وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں ، میرے جیسے شخص کے جذبات کیا ہو سکتے ہیں۔  وہ اپنے بھائی سے محروم ہو گیا ہے اور جو عظیم مرتبہ اُن کو شہادت کی صورت میں ملا ہے ، اُس کا تو جب میں تصور کرتا ہوں تو بس یہی کہتا ہوں کہ حسرت آتی ہے کہ افسوس یہ میں کیوں نہ ہوا۔ میں اُن کے لیے سراسر دُعا ہوں کہ اللہ اُن کے درجات کو بُلند کرے۔

اگر آپ محسوس نہ فرمائیں تو چند اشعار اُن کے بارے ہو گیے تھے وہ میں آپ کو سُنا دیتا ہوں۔

 

٭ ضرور ، ضرور ، جاوید صاحب۔

٭ اِس سے اُن کی شحصیت کا کُچھ اندازہ آپ کو ہو جائے گا۔

 

ہمارے درماندہ کارواں میں وہ اِک متاعِ گراں تھا

ہزار رستوں کے پیچ و خم ہوں وہ پھر بھی اُمید کا درا تھا

وفا کا پیکر ، جنوں کی ہر راہ کا مسافر ، وہ مردِ میداں تھا

بغا ہو یا آشتی ، محبت کے ہر قرینے سے آشنا تھا

جمال بھی تھا ، کمال بھی تھا ، مگر وہی بات تھی کہ گویا

درخت کو خود اُسی کے پھل نے زمیں کی جانب جھکا دیا تھا

وہ قتل گاہوں میں شاخِ زیتون لے کے پھرتا رہا ہمیشہ

اگرچہ برسوں سے اپنے قابیل کے اِرادوں کو جانتا تھا

یتیم بچوں کا باپ بن کر سروں پہ رکھتا تھا ہاتھ اُن کے

وہ اپنے آقا کی پیروی میں کئی غریبوں کا آسرا تھا

اُسی سے لڑنے نکل پڑا تھا ، تمام تاریک آندھیوں سے

اگرچہ مٹی کا اُس کے ہاتھوں میں ٹمٹما ہوا دِیا تھا

اِسی تمنا میں جی رہے تھے ، ہوئی سعادت نصیب اُس کے

سبب یہی ہے کہ اِس تمنا میں ہم سے آگے بڑھا ہوا تھا۔

 

٭ غامدی صاحب ، آپ کی اِس خوب صورت نظم سے جہاں ڈاکٹر محمدفاروق خان سے آپ کے بے پایاں قلبی تعلق کا اِظہار ہوتا ہے وہیں اُن کی شخصیت کے نمایاں پہلو بھی بڑی خوب صورتی سے اُجاگر ہو جاتے ہیں۔  ہمیں معلوم ہے کہ ایک عرصہ تک اُن کی آپ سے علمی رفاقت رہی۔  آپ ہمیں اُن کی علمی سوچ اور اُس کے اِرتقائی سفر کے بارے میں کچھ بتائے۔

٭ وہ آج سے بیس سال پہلے میرے پاس پہلی مرتبہ تشریف لائے تھے۔ اُن کی اہلیہ اِشراق کی قاری تھیں اور اگر آپ جانتے ہیں تو آپ کے علم میں ہوگا کہ وہ خود بھی ڈاکٹر تھیں۔ اُنہوں نے میرے نام ایک خط لکھا اور کہا کہ میرے شوہر نے ایک کتاب لکھی ہے۔ ’’پاکستان کا مُستقبِل‘‘ کے عنوان سے ، اُس میں اُن کے سامنے کچھ مذہبی لحاظ سے کچھ اُلجھنیں ہیں ، وہ اُن پر گُفتگو کے لیے آنا چاہتے ہیں ، ملاقات کا کوئی وقت خاص کر لیجیئے گا چُنانچہ اُن ہی کا خط لے کر وہ میرے پاس تشریف لائے اور اِس پہلی ملاقات کے بعد میرے اور اُن کے درمیان بہت سے موضوعات پر گُفتگو ہوئی اُس کے بعد وہ کئي دِن میرے پاس تشریف فرما رہے اُس میں اختلاف بھی ہوا ، اتفاق بھی ہوا فِل جُملہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بڑی حد تک اُنہوں نے اِس فکر کو ہضم کر لیا تھا اور وہ اِسی کے علم بردار تھے۔ بعض تعبیرات میں اِختلاف ہو سکتا ہے ، وہ خود ایک صاحبِ فکر آدمی تھے۔  اور جس طرح مجھے بھی اپنے اساتذہ اِختلاف ہو جاتا ہے ، اُنہیں بھی مجھ سے بعض چیزوں میں اختلاف رہتا تھا۔  تاہم بحیثیتِ مجموعی وہ اِسی چیز کو لے کر اُٹھے تھے ، اِسی کے لیے لوگوں کے سامنے شہادت دیتے رہے اور اِسی کے لیے اُنہوں نے اپنی جان دی ہے۔  جہان تک اُن کی تصنیفات کا تعلُق ہے ، اُس میں اُن کے سامنے بڑا مقصد یہ ہوتا تھا کہ ایک عام آدمی کو بات سمجھا دی جائے۔  پھر بہت سی چیزیں اُنہوں نے اُس زمانے میں بھی لکھی ہیں جب ابھی میں نے میزان کو مکمل نہیں کیا تھا۔  البیان تو خیر ابھی تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچی۔ اور اُن کے لیے یہ بھی ممکن نہیں ہوتا تھا کہ مردان میں رہنے کی وجہ سے وہ ہر وقت مجھ سے اِستفادہ کر سکیں تو اِس لیے بعض معاملات میں ہو سکتا ہے کہ میرے زاویہ نظر میں اور اُن کے زاویہ نظر میں لوگوں کو فرق نظر آئے بالعموم یہ ہوتا تھا کہ جب گُفتگو ہوتی تھی تو اِتفاق ہو جاتا تھا۔

 

٭صحیح ہے ، غامدی صاحب ، اگر ہم ڈاکٹر صاحب کے علمی اور دعوتی کام پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے جہاد و قتال سمیت اِنتہائي اہم موضوعات پر قلم اُٹھایا اور اِنتہائی شدت پسندی کے ماحول میں بغیر کوئی دباؤ قبول کیے اپنے کام کو جاری رکھا لیکن اِس سارے عرصے میں انہوں نے شائستگی ، متانت ، نرمی اور دلیل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا ، جب کہ دیگر مذہبی طبقات میں ہمیں سختی کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔  آپ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے اِس پہلو کے بارے میں بھی ہمیں کچھ بتائے۔

٭ یہ اُن کی سرشت میں تھا۔  اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بنایا ہی ایسا تھا۔  یہ چیز اُن کے خمیر میں ڈال دی گئي تھی۔  قدرت جب اپنی محبوب شخصیات کو تخلیق کرتی ہے تو بعض غیر معمولی چیزیں اُن کے اندر ودیعت کر دیتی ہے۔  یہ حِلم ، یہ متانت ، یہ شائستگی ، یہ تہذیب ، یہ نرم خوئی ، اُن کا یہی کمال تھا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ میرے تو ذہن میں جب اُن کی تصویر آتی ہے اُن کے تبسم کے ساتھ آتی ہے۔  وہ ایسے ہی تھے ، اُن کو کبھی غُصہ نہیں آتا تھا۔ میں نے ابھی شاید ذکر کیا ہے کہ بیس سال کی رفاقت کے دوران میں وہ ادارے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبر رہے۔ اِس میں ظاہر ہے کہ اِختلافات بھی ہو جاتے تھے۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی شکایت ہو سکتی تھی لیکن ہمیشہ وہ صُلح جُو رہے۔ کسی کے ساتھ اُن کے ہاں نشیب و فراز نہیں آئے۔ تعلقات کی جو سطح طے ہوگئي ، ہمیشہ وہ اُس کی پاسداری کرتے تھے اُن کی نگاہ مخاطب کے اِخلاص پر ہوتی تھی اور اُس کے لحاظ سے بات کرتے تھے۔ غُصہ تو معلوم ہوتا ہے کہ اُن کو کبھی آتا ہی نہیں تھا۔ ہمیشہ بڑی تہذیب اور شائستگی کے ساتھ بات کرتے تھے۔ اپنوں کے ساتھ بھی اُنکا یہی معاملہ تھا ، غیروں کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔

 

٭غامدی صاحب ، میں آپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ اُن کی شہادت سے پاکستان میں بالعموم اور خیبر پختون خواہ میں بالخصوص ، آپ کے خیال میں کیا خلا پیدا ہوا ہے۔

٭ میں سمجھتا ہوں کہ میری قوم ایک بڑے آدمی سے محروم ہوگئي ہے اور کسی قوم کی یہ بڑی محرومی ہوتی ہے کہ وہ اِس طرح کی شخصیات کھو بیٹھتی ہے۔  عربی زبان میں ایک مصرعہ ہے کہ

 

أضاعونى و أى فتى أضاعوا

اُنہوں نے میرے جیسے نوجوان کو کھو دیا ، اور دیکھو کیسے نوجوان کو کھو دیا۔

 

حقیقت یہ ہے کہ بڑا نقصان ہوا ہے ، لیکن اِس قوم کو شاید اِس کا احساس ہی نہیں ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی یہ اپنے بلوغ کے اُس مقام تک نہیں پہنچی کہ اپنی اصلی خیر خواہ شخصیتوں کو پہچان سکے۔

 

٭صحیح ، اور آپ کے خیال میں اُن کی کمی سے جو خلا پیدا ہوا اُس کو کیسے اور کون پُر کر سکتا ہے۔

٭ دیکھیے یہ تو خُدا کے کام ہیں سیدنا مسیح علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ کوئي شخص بھی ناگُزیر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے کیا مشکل ہے کہ وہ پتھروں کے نیچے سے ابراہیم پیدا کردے۔  دین اُسکا ہے ، پیغام اُسکا ہے ، ہم میں سے کوئي بھی نا گزیر نہیں ہے۔  ہم چلے جائيں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے دین کے دوسرے خُدّام پیدا کر دے گا۔ اِنسانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی شفقت سے ، اللہ تعالیٰ کی محبت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں جو موقع ملا ہے ہمارا کام یہ ہے کہ ہم خدمت کریں لیکن ہم خُدّام ہیں ہم کوئی دین کے مُحسن نہیں ہیں ، دین کے خُدّام ہیں۔ وہ بھی دین کے خُدّام میں سے ایک خادِم تھے۔ اللہ ہمیں خدمت کی توفیق دے۔ اِس پر اُس کا شُکر ادا کرنا چاہيئے۔ اُس کا دین ہم پر نہیں کھڑا۔ اُس کا دین اُس کی اپنی حکمت کے تحت قائم ہے اور وہ اس کے اسباب پیدا کرتا رہتا ہے۔

 

٭ ہمارے مذہبی طبقے کی شدّت پسندی سے نہ صرف جدید ذہن اِسلام سے دور ہے بلکہ عالمِ اِسلام میں بھی اِسلام کا ایک غلط تاثر بن چُکا ہے ، جب کہ دوسری طرف ڈاکٹر فاروق صاحب جیسے معتدِل مزاج مذہبی سکالر کو بھی برداشت نہیں کیا گیا۔ غامدی صاحب ، آپ اِس کی اِصلاح کے لیے کیا اِقدامات تجویز کرتے ہیں۔

٭ اِس کے لیے ناگُزیر ہے کہ ہم ایک بڑی تحریک برپا کریں ، عالمِ اِسلام میں جو

Reformation of Muslim Religious Thought

کی تحریک ہو ، یعنی مسلمانوں کی مذہبی فکر کی تشکیلِ جدید علامہ اِقبال ؒنے اپنی کتاب کا نام ہی رکھا تھا

"Reconstruction of Religious Thought in Islam"

کتاب میں جو کچھ اُنہوں نے فرمایا اُس سے آپ اِختلاف بھی کر سکتے ہیں ، اِتفاق بھی کر سکتے ہیں۔ میں بھی اُن کے بہت سے نقطہ ہائے نظر سے اِختلاف رکھتا ہوں لیکن بنیادی طور پر وہ کام مسلمانوں میں ہونا چاہیئے۔  مسلمانوں کے مذہبی فکر میں ایسا تعفن پیدا ہو چکا ہے اور اِس طرح کا جمود در آیا ہے کہ جب تک اُس کو توڑ نہیں دیا جائے گا اور اُس کو قرنِ اوّل میں جو اِسلام کی تعبیر تھی اُس کی روشنی میں جانچ کر ، پرکھ کر دوبارہ ایک نئی صورت میں تشکیل نہیں دیا جائے گا اُس وقت تک ہم صورتِ حال کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

ابھی تک ہم اِس طرح کی کوئي تحریک برپا نہیں کر سکے۔ اصل میں یہ جو میری کچھ تھوڑی بہت کاوش ہے یا مجھ سے پہلے بعض بزُرگوں کی کاوشیں ہیں یا ڈاکٹر محمدفاروق خان صاحب کی جِدوجُہد ہے یہ اِنفرادی کوشِشیں ہیں۔ اِس کو جب آپ ایک موومنٹ ، ایک تحریک کی صورت دیں گے اور یہ میں نے جس طرح کہ اِس کو نام دیا ہے ، یہ مذہبی فکر کی تشکیلِ جدید کے لیئے ناگُزیر ہے۔  جب تک یہ نہیں ہوگا اُس وقت تک آپ اِسلام کو اور مسلمانوں کو دُنیا کے سامنے دعوت کے صحیح مقام پر کھڑا نہیں کر سکتے۔

 

٭ غامدی صاحب ، ڈاکٹر محمدفاروق خان کی شخصیت کے برعکس ہمارے ہاں مذہب سے وابستہ لوگوں میں سختی کا عنصر غالب ہو جاتا ہے۔ آپ اِس صورتِ احوال کی اِصلاح کا کیا نسخہ تجویز کرتے ہیں۔

٭ خدا نے اپنے آخری پیغبرؐ کی فطرت یہی بنا دی تھی۔ وہ نخلِ فطرت کے بہترین ثمر تھے اور آپ یہ دیکھیئے کہ قرآن نے اُن کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے کہ۔

 

وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ  (159:3)

کہ اے پیغمبرؐ اگر آپ درُشت خو ہوتے اور سخت رو ہوتے تو یہ لوگ آپ کے گِرد سے چھٹ گئے ہوتے۔ اُن کی کریم النفسی پر جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔  اُن کے لئے رؤف اور رحیم کے الفاظ اِستعمال کئے ہیں۔  تو ہمارے سامنے اپنے پیغمبرؐ کا اُسوہ ہونا چاہیے میرا اِحساس یہ ہے کہ اِس میں کچھ تو جو لوگ مذہبی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں اُن کو جِس طرح کی تربییت دی جاتی ہے اُس کا نُقص ہے اور دوسرے مذہبی فکر میں بھی بعض چیزیں ایسی در آئی ہیں جِن سے اِس کو نجات دِلانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی طبیت میں نرمی فطری طور پر تھی ۔  پھر جِس فکر کے وہ علم بردار بن کر کھڑے ہوئے وہ فکر چونکہ مبنی اِس چیز پر ہے کہ ہمارا رِشتہ غیر مسلموں کے ساتھ ، نہ ماننے والوں کے ساتھ دعوت کا ہے۔ ہمارا ہتھیار صرف اِستدلال ہے۔  ہمیں اپنی بات دلیل کے ساتھ بیان کرنی ہے۔ جب آپ اِس مقام پر کھڑے ہوتے ہیں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ کے اندر سختی در آئے یا آپ کسی کے ساتھ کوئي زیادتی کریں یا آپ کسی کے اِخلاص پر حملہ کریں۔ آپ اپنی دلیل پیش کریں گے اور خود بھی اس مقام پر کھڑے ہونگے کہ ہو سکتا ہے کہ ہماری بات میں غلطی ہو۔  دوسرا اُس کو واضع کردے گا تو ہم اُس کو قبول کر لیں گے۔ یہ جگہ ہے جس پر چونکہ ہمارے مذہبی راہنما بالعموم کھڑے ہی نہیں ہوتے تو اِس وجہ سے اُن کے ہاں چند منٹ کی گُفتگُو کے بعد درُشتی آ جاتی ہے۔

 

٭ غامدی صاحب ، آپ ڈاکٹر فاروق صاحب کے علمی اور دعوتی سفر میں شریک رُفَقا کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گے۔

٭ میں اُن سے یہی کہوں گا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے محاسن کو سامنے رکھیں۔ انہوں نے جس طرح محنت کی ، جس طرح جِدوجُہد کی ، جِس اِخلاص کے ساتھ کی ، زندگی کے آخر مرحلے تک کی۔  'لاتموتُنَ ولا انتم مسلمون'؟۔۔۔ کا نمونہ بن کر جئے وہ بھی اپنے سامنے یہی چیز رکھیں سب سے بڑا اُسوہ تو اللہ کے پیغمبرؐ کا اُسوہ ہے لیکن قریب کی شخصیات بھی لوگوں کے لیے اِنسپیریشن کا ذریعہ بنتی ہیں۔  ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے اِس پہلو کو سامنے رکھ کر وہ کوشِش کریں کہ حوصلے کے ساتھ ، ہمت کے ساتھ ، عزم کے ساتھ یہ خدمت انجام دیں۔ اپنے مُلک میں رہ کر انجام دے سکتے ہیں وہاں انجام دیں ، ملک سے باہر نکل کر انجام دے سکتے ہیں وہاں جا کے انجام دیں۔  لیکن یہ ایک بڑا کام ہے۔  اِس کی ابھی ابتدا کی گئي ہے۔  اِس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہزاروں لوگوں کی ضرورت ہے۔ اِس کو ایک تحریک میں بدلنا چاہیے۔ ایک ایسی تحریک جو مذہبی فکر میں ایک اِنقلاب برپا کر دے اور اِسلام کو اُس کے صحیح چہرے کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرے۔

 

٭غامدی صاحب ، آخر میں آپ ڈاکٹر صاحب کی اِس شہادت کے المناک سانحے کے ذمہ داروں کے لیے کچھ کہنا چاہیں گے جنہوں نے اللہ کے رسولؐ کی سُنت کے برعکس دلیل کی بجائے ظُلم و جبر کا راستہ اختیار کرکے اُمتِ مُسلمہ کو نہ صرف ایک عظیم ہستی سے محروم کر دیا ہے بلکہ اِسلام کے چہرے کو بھی مزید مسخ کیا ہے۔

٭ اُن کی خدمت میں بس یہی عرض کروں گا کہ وہ اپنے آپ کو داروغہ نہ سمجھیں ، اپنے آپ کو داعی بنائیں دوسروں کی بات بھی تحمل کے ساتھ سُنیں۔ اِستدلال کے ہتھیار کے ساتھ سامنے آئیں۔ یہ ظُلم جو اُنہوں نے کیا ہے اور اِس طرح کے مظالم جو اِس سے پہلے وہ کرتے رہے ہیں ، مجھے اندیشہ ہے کہ خدا کی بارگاہ میں کہیں اُن سے وہی سوال نہ کیا جائے کہ۔

 

وَإِذَا الْمَوْؤُودَةُ سُئِلَتْ  بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ (81: 8-9)

’’جب زندہ گاڑی ہوئي لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ اُسے کِس گُناہ میں مار دیا گیا‘‘۔

 

٭غامدی صاحب ' آپ کا بُہت شکریہ کہ آج آپ نے ہمیں وقت دیا۔

سامعینِ کرام ہم آج کے اپنے پروگرام کا اِختتام اِس دُعا کے ساتھ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کے درجات بلند کرے ، ہمیں اُن کے مشن کو جاری رکھنے کا عزم اور حوصلہ عطا کرے اور بحیثیت ایک قوم اور اُمت ہمیں صبر ، برداشت ، ہمت اور اِخلاق کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔  اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ السلامُ علیکُم۔

 


 
Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker