Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
مینو << واپس ہوم نیۓ مضامین سب سے زیادہ پڑھے جانے والے سب سے زیادہ ریٹ کیۓ جانے والے
الصلاہ واسلام ٰعلی سیدنا و مولانا محمداعبداللہ و رسولہ
مصنف: ملک فیصل اسلم  پوسٹر: admin
ہٹس: 3330 ریٹنگ: 0 (0 ووٹ) تاثرات: 0 تادیخ اندراج:   13 ستمبر 2010 اس مضمون کو ریٹ کریں

 

 

تخلیق میں عروج پر جسکا غرور تھا۔

 وہ نکتہ آدمی میں فقط عقل و شعور تھا۔

عقل و شعور نعمت چنداں ھزار ھو۔

دل اس پہ وہ ملا کہ سدا بے قرار ھو۔

دل اسقدر مچلے کہ نمٹنا محال ہے۔

خود آگہی کا اس میں اٹھتا سوال ہے۔

خود آگہی کا عقدہ کھلتا ہے نور سے۔

اور نور کا ظہور تو ہے خدا کے حضور سے۔

خدا بھیجتا ہے ہادی اپنی جناب سے۔

دیتے ہیں جو ہدایت اسکی کتاب سے۔

ہدایت کے واسطے رسول و نبی ھوے۔

جو اسکے بجز ھوے وہ اسکے ولی ھوے۔

شاعر فلسفہ دان بھی پھیلے جہان میں۔

خود آگہی کی کشتی کو کھینچا طوفان میں۔

خود آگہی میں ان کا یہ نکتہ تھا اولیں۔

غافل یہ سوچ کیوں ھوا تو اسفل سافلیں

تخلیق جس تقویم پر تیری تھی وہ احسن۔

اپنی خودی بھلا کے تو زیاں کار تو نہ بن۔

ان ہادیوں میں کچھ ولی لازوال تہے۔

سب سے بلند درجے پہ محمد اقبال تہے۔

اقبال کا پیغام اقبال خودی کا تھا۔

خو آگہی سے آگے کمال خودی کا تھا۔

ہیں بر سر پیکار خودی کے جمود پر۔

کہتے ہیں خاص و عام کو خودی کی نمود کر۔

یہ دیکھ لیں اقبال کی خودی کے جمال کیا ہیں۔

قبل اسکے جانتے ہیں کہ خود اقبال کیا ہیں۔

خود ان ہی سے جو پوچھا کہ حضرت ہیں آپ کیا۔

کہنے لگے ’اقبال نہیں اقبال سے اگاہ‘۔

اقبال کائنات میں اک ایسا وجود ہے۔

جس کی تجلیات کی ہمہ سو نمود ہے۔

جس قوم کا اقبال نے بدلا نصیب ہے۔

وہی اسکو گر نا سجہے تو بہت بد نصیب ہے۔

دانش ور و مفکر و فلسفہ دان تہے۔

کلام بیان ان کے شرح القرآن تہے۔

وکلاء کے وہ وکیل تہے عقلاء کے تہے عقیل۔

فصحاء کے وہ فصیح تہے نہ تھی انکی کچھ مثیل۔

یہ مرتبہ ملا تھا ان کو حضور سے۔

روشن ضمیر انکا تھا محمد کے نور سے۔

دامن ہے انکا خوبیوں سے لدا ھوا۔

اور قلب عشق مصطفیٰ سے ہے بھرا ھوا۔

امت کی راہنمائی کی اس کی میراث تک۔

پھر سب بیان کر دیا الحمد سے ناس تک۔

سب سے بلند مقام ھی امت کی ہے میراث۔

کنتم خیرا امت اخرجت للناس۔

پھر سب سبب بیاں کئے کھویا مقام کیوں۔

اخص الخواص قوم بنی عام العوام کیوں۔

دل مردہ ھو گئے اور خودی کو ھوا زوال۔

قرآں کو چھوڑ کر پھر سنبھلنا ھوا محال۔

صدیاں گزر چلیں اسی اضطراب میں۔

مردہ دلی و زوال خودی کے عذاب میں۔

دل مردہ اور خودی کو کر کے آباد پھر۔

ساقی نے فیض عام کیا صدیوں کے بعد پھر۔

اسی فیض کی بدولت خودی سے ھوئی آگاہ۔

 امت کو زندہ کر گئی اقبال کی نگاہ۔

اقبال نے خودی کو جو ہم پہ کیا عیاں۔

اسکا بھی حال آپکی خدمت میں ھو بیاں۔

بلندی میں ہے افلاک اور وسعت میں ہے زمین۔

یہ پیکر خاکی میں ہے پر پیکر خاکی نہیں۔

جیتی بھی ہے اور پرورش سے ھوتی ہے جواں بھی۔

تربیت سے کرتی ہے جواہر کو عیاں بھی۔

روشن و تاریک و خوابیدہ و بے دار۔

فراز و نشیب میں کبھی ھوتی ہے نمودار۔

محکم ھو علم و عشق سے تو آتش ہمہ سوز۔

بیگانہ اس سے ہوں اگر تو پوشیدہ زمیں دوز۔

پوشیدہ خودی ہو تو نہیں ممکن مسیحائی۔

تقدیر میں امت کی فقط لکھتی ہے رسوائی۔

سر نہاں خودی کا ہے لاالہ الا اللہ۔

جلوت و خلوت میں ہیں مصطفیٰ و کبریا۔

مرکز ہے کائنات کا یہ ،مسکن ہے اسکا دل۔

عرش بریں سے آگے کہیں اسکی ہے منزل۔

اسرار خودی میں تین منازل سے بادشاہی۔

اطاعت و ضبط نفس و نیابت الہی۔

نی چاہ1 نے انہی تین منازل کو ہے مانا۔

افسوس خودی کو مگر افسانہ ہے جانا

  اور کانٹ2 بھی دیتا ہے عقلی ھی دلالت۔

کہتا ہے نہیں اس سے زیادہ حقیقیت۔

 بریڈلی3 کے مگر سینے میں جو جلتا ہے چراغ۔

پاتا ہے خودی کی وہ حقیقت کا سراغ

لائیبنٹز4 سے خودی کا اک تصور جو عیاں ہے۔

جامد ہے، و۔ہ ثابت ہے، بے نشو و نما ہے۔

یہ سب ہوے حقیقت و افسانہ کے محصور۔

تصور اقبال تھا ان سب سے کجا دور۔

 وجود و عدم کے جھگڑے سے کیسے خروج ہو۔

پیش نظر ہے کیونکر اسکا عروج ھو۔

عروج خودی کا مقصد حیات جاوداں ہے۔

یہی ہے لاالہ اور یہی سر نہاں ہے۔

خودی کیا ہے اور خودی کی منزلیں ھیں کیا۔

ہو اقبالی بصیرت تو سب کچھ  رضائے مصطفیٰ

اگر بندہ یہ پا جائے رضائے مصطفیٰ کیا ہے۔

’خدا بندے سے خود پوچہے بتا تیری رضا کیا ہے‘۔

 


 
Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker