Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
 ہوم > سوالات > سیاسی مسائل
مینو << واپس قرطاس موضوعات نئے سوالات سب سے زیادہ پڑھے جانے والے سوال پوچھیے  

امت مسلمہ کا ایک خلیفہ
سوال پوچھنے والے کا نام Izhar Ahmad
تاریخ:  15 نومبر 2006  - ہٹس: 1861


سوال:
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ پوری امت مسلمہ کا ایک امیر ہونا چاہیے اور یہ ہماری دینی ذمہ داری ہے، آپ کی کیا رائے ہے؟ اور ان کے خیال میں کسی جماعت میں شامل ہونا بھی مذہبی ذمہ داری ہے کیا واقعی ایسا ہے؟

جواب:
ہمارے خیال میں جماعت سے مراد مسلمانوں کا نظم اجتماعی ہے اور اس نظم اجتماعی سے جڑ کر رہنا مذہبی ذمہ داری ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کے لیے واضح ہدایات موجود ہیں۔ لیکن یہ کہ مسلمانوں کا ایک ہی سربراہ ہونا چاہیے یہ لازم نہیں ہے اور میرے نزدیک یہ ممکن بھی نہیں ہے اورنہ ہی ہماری مذہبی ذمہ داری ہے

تاریخ انسانی میں اس خواہش کے پورا ہونے کی دو ہی صورتیں نظر آتی ہیں تیسری کوئی صورت ابھی تک ایجاد نہیں ہو سکی۔ ایک یہ ہے کہ کوئی سکندر اٹھے ، فتوحات شروع کرے اورانسانوں کو مارمار کر ایک حکومت قائم کرلے یا پھر یہ ہے کہ عامتہ الناس کے رائے اور مشورے سے حکومتیں قائم کی جائیں۔ سکندر کی طرح کی فتوحات کا اب زمانہ نہیں رہا۔ امریکہ اس وقت سپر پاور ہے اور اس نے افغانستان اور عراق پر قبضہ بھی کیاہے لیکن اس کے باوجود اس تگ ودو میں مصروف ہے کہ وہاں مقامی حکومت بنا ئی جائے کیونکہ عالمی سطح پر قبضے والے طرز عمل کو پسند نہیں کیا جاتا۔

دوسری صورت اقتصادی صورتحال اور معاشی عمل ہے۔ جس طرح یورپی یونین میں ہو رہا ہے اس طریقے سے بھی آہستہ آہستہ اتحاد کی شکلیں نکلتی چلی آتی ہیں۔ مثلا کسی موقع کے اوپر یورپی یونین یہ فیصلہ کرے کہ اچھا ہم ایک ہی حکومت بنا لیتے ہیں تو یہ ہوجائے گا لیکن یہ ان کی کسی مذہبی خواہش کا نتیجہ نہیں ہوگا بلکہ تمدنی، سیاسی اور اقصادی حالات کا ارتقا ہوگا۔ کوئی امیر قوم غریبوں کو اپنے ساتھ شامل کرنا پسند نہیں کرتی ۔ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ برطانیہ میں جا کر آپ شہریت حاصل کرلیتے ہیں لیکن سعودی عرب میں آپ یہ بھی نہیں کر سکتے ۔ وجہ کیا ہے ، وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کو اپنی دولت میں شریک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ آج سے سو سال پہلے یہ لوگ ترستے تھے کہ کوئی وہا ں آئے۔ اب کیا تبدیلی کیا آئی ہے صرف یہی کہ اقتصادی حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔ چنانچہ اقتصاد ی حالات بھی تاریح و جغرافیے کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کا اشارہ ہمیں قرآن سے بھی ملتا ہے ۔قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء (آل عمران – 26:3) میں یہی بیان ہوا ہے کہ بادشاہی میری ہے اور میں اپنے قانون کے مطابق کبھی ایک قوم کو دیتا ہوں کبھی دوسری قوم کو دیتا ہوں یہ کام میں کرتا رہتا ہوں ، اس آیت کو ختم کیا ہے وَتَرْزُقُ مَن تَشَاء بِغَيْرِ حِسَابٍ (آل عمران – 27:3) پر یعنی اس کی بنیاد اصل میں اقتصادی حالات ہوتے ہیں اللہ تعالی بے حساب دولت دیتا ہے تو وہ اقتصادی طاقت بنتی ہے اور اقتصادی قوت والا سپر پاور کا کردار ادا کرتا ہے۔ مسلمانوں میں فی الحال اس کے کوئی آثار نظر نہیں رہے۔ اس لیے اس طرح کے خواب دیکھنا چھوڑ دینا چاہیے۔ مسلمانوں کی اس وقت باون ، پچپن حکومتیں موجود ہیں دعا کیجیے وہ بہتر ہوں ، اپنی تعمیر کریں ، یہ جو بے مقصد مسائل میں الجھ کر مسلمان اپنی توانائی ضائع کر رہے ہیں اس سے باز آئیں ۔

ایک حکومت قائم کرنا کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ خلافت راشدہ کے صرف نوے سال بعد مسلمانوں کی دو حکومتیں قائم ہو گئی تھیں یعنی بغدادمیں عباسیوں اور اندلس میں امویوں کی حکومت، دونوں حکومتیں صدیوں تک parallel کام کرتی رہی ہیں نہ کسی نے یہ کہا کہ ان کو ایک ہو جانا چاہیے اور نہ کسی نے ان کی حرمت کا فتوی دیا۔ مسلمان آج بھی اندلس پر فخرکرتے ہیں۔ بغداد بھی آپ کی تاریخ ہے اور اندلس بھی آپ کی تاریخ ہے ۔

یہ مسئلہ تو لوگوں نے اس زمانے میں پیدا کر دیا ہے کیونکہ اس زمانے میں بعض ایسے مذہبی رہنما پیدا ہو گئے ہیں جو نہ اصول عمرانیات سے واقف ہیں اور نہ تاریخی ارتقا سے ، نہ ہی انہیں سماجی تبدیلیوں کے قانون سے واقفیت ہے اورنہ ہی تمدن کے ارتقا سے ، نہ قوموں کے عروج و زوال کا فلسفہ ان کے علم میں ہے اور نہ اقتصادی حالات کے اثرات کا ، وہ اصل میں مذہبی واعظ ہیں۔ اس طرح کی خواہشوں کو وہ دین بنا کر بیان کر تے رہتے ہیں جب کہ یہ چیزیں اللہ کی کتاب سے بالاتر ہے اس میں ایسی کوئی بات نہیں ۔ 50 حکومتیں آپ کی پہلے ہی ہیں کوئی دس پندرہ اور بھی قائم کر لیں توکوئی خلاف شریعت نہیں ہو گا۔ البتہ مسلمانوں کی ہر حکومت کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ شریعت کو بالاتر مانے ، یہ ہی اصل بات ہے اسکے علاوہ کسی اور مطالبے یا امر پر اپنی توانائی ضائع کرنے کی ضرورت سرے سے موجود نہیں۔

جاويد احمد غامدي
مترجم : عبد اللہ بخاري


Counter Question Comment
You can post a counter question on the question above.
You may fill up the form below in English and it will be translated and answered in Urdu.
Title
Detail
Name
Email


Note: Your counter question must be related to the above question/answer.
Do not user this facility to post questions that are irrelevant or unrelated to the content matter of the above question/answer.
Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker