Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
 ہوم > سوالات > سیاسی مسائل
مینو << واپس قرطاس موضوعات نئے سوالات سب سے زیادہ پڑھے جانے والے سوال پوچھیے  

انسان خلیفۃ اللہ فی الارض ہے۔ اس قول کی حقیقت
سوال پوچھنے والے کا نام Umar Farooq
تاریخ:  11 مئ 2005  - ہٹس: 3750


سوال:
انسان کے خلیفۃ اللہ ہونے کی مذہبی دلیل کیا ہے؟ اسلامی سیاست کے ضمن میں ہر کتاب میں اس کا ذکر ضرور ملتا ہے کیا یہ صحیح ہے؟

جواب:
آپ کی بات صحیح ہے۔ پچھلی ایک دو صدیوں سے مسلمانوں کے ذہنوں پر یہ تصور یقینا چھایا ہوا ہے۔ اور اس کی رو سے انسان زمین پر اللہ کا نائب اور خلیفہ ہے۔

جاوید احمد غامدی صاحب کی رائے میں اس بات کی کوئی بنیاد اور دلیل قرآن میں موجود نہیں ہے۔

اس ضمن میں جس ئیت کاحوالہ دیا جاتا ہے وہ یہ ہے

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً (30:2)
اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمیں پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔

عربی زبان میں لفظ خلیفہ کے دو معنی ہیں

1۔ ایک شخص جو کسی کی عدم موجودگی میں اس کا قائم مقام ہوتا ہے اور اس کے اختیارات استعمال کرتا ہے۔

2۔ ایسا شخص جسے کوئی اختیار دیا گیا ہو۔

اس نظریے کے حامی پہلے مطلب کو لیتے ہیں۔ اور وہ قرآن کے باقی مقامات کی طرح جن میں لفظ خلیفہ استعمال ہوا ہے یہاں بھی اس کو اسی مفہوم میں لیتے ہیں۔

اس آیت پر غور سے پتا چلتا ہے کہ یہاں اس سیاق میں دوسرے مطلب میں استعمال ہوئی ہے۔ یعنی ایسا شخص جسے کوئی اختیا ردیا گیا ہو۔

زبان کے اعتبار سے بھی یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا۔ لفظ خلیفہ یہاں نکرہ استعمال ہوا ہے۔ اسے یا تو معرفہ ہونا چاہیے تھا یعنی الف لام کے ساتھ آتا ہے یا کسی مضاف الیہ سے معرفہ ہوتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میں یہ لفظ دوسرے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ تو اس کا ثبوت درج ذیل آیت ہے۔

وَاذكُرُواْ إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاء مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً فَاذْكُرُواْ آلاء اللّهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (69:7)
اور یاد کرو جب کہ اس نے تمہیں قوم نوح کے بعد ان کا جانشین بنایا اور جسمانی اعتبار سے تمہیں وسعت اور کشادکی عطا فرمائی تو اللہ کی شانوں کو یاد رکھو تا کہ تم فلاح پاؤ۔

يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ (26:38)
اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا تو لوگوں کے ساتھ عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔

لفظ خلیفہ سے فعل استخلف بنا ہے وہ بھی درج ذیل آیت میں اسی مطلب میں استعمال ہوا ہے

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ (55:24)
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے عمل صالح کیے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک میں اقتدار بخشے گا جیسا کہ ان لوگوں کو اقتدار بخشا جو ان سے پہلے گزرے۔

محولا بالا آیات میں سے پہلی آیت میں قوم عاد کو خطاب کیا گیا ہے۔ اور یہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ قوم عاد قوم نوح کے کئی صدیوں بعد ظہور پذیر ہوئی۔ اور ان دونوں کے درمیان کئی اقوام نے حکومت و سطوت حاصل کی۔ مزید یہ بھی ہے کہ قوم نوح اور قوم عاد کے علاقے بھی مختلف ہیں۔ اس اعتبار سے قوم عاد قوم نوح کے جانشین نہیں ہوسکتے۔ اس لیے ظاہر ہے کہ لفظ خلیفہ کے پہلے معنی یعنی جانشین ہونا یہاں نہیں لیے جا سکتے۔

دوسری اور تیسری آیت کے ضمن میں بھی اگر روایتی مطلب لے لیا جائے تو اسی قسم کا تضاد واقع ہو جاتا ہے۔

دوسری آیت میں اللہ تعالی صرف حضرت داؤد ہی کا ذکر بطورخلیفہ کیوں کر رہے ہیں جبکہ اس نظریے کی رو سے تو ہر انسان اللہ کا خلیفہ ہے۔

تیسری آیت میں مومنین کے لیے خلافت کا وعدہ کیوں کیا جارہا ہے جب کہ ہر انسان ہی پیدائشی طو ر پر خلیفہ ہے۔

یہ تمام آیات با معنی ہو جاتی ہیں اور ان کا مطلب با لکل واضح ہو جاتا ہے اگر دوسرا مطلب لے لیا جائے یعنی با اختیا ر ہونا۔

یہ دوسرا مطلب بھی لفظ خلیفہ کے اندر اصلا پہلے مطلب ہی سے ترقی کر کے پیدا ہوا ہے اور زبانوں کے ارتقا کی تاریخ میں ایسا اکثر ہوتا رہتا ہے۔ لفظ وارث کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس کا اصل مطلب تو ظاہر ہے کہ کسی کا قانونی وارث ہونا ہی ہے۔ لیکن یہ صرف مالک کے معنی میں بھی آ جاتا ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں ہے

وَإنَّا لَنَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ (23:15)
بے شک ہم ہی حیات و موت دیتے ہیں اور ہم ہی مالک ہیں

اس آیت کو پہلے معنی میں بیان کیا جائے تو مطلب مہمل قرار پائے گا۔

چنانچہ یہ کہاجا سکتا ہے کہ نظریہ خلافت کی کوئی بنیاد قرآن میں نہیں ہے۔


Counter Question Comment
You can post a counter question on the question above.
You may fill up the form below in English and it will be translated and answered in Urdu.
Title
Detail
Name
Email


Note: Your counter question must be related to the above question/answer.
Do not user this facility to post questions that are irrelevant or unrelated to the content matter of the above question/answer.
Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker