Powered by
UI
Techs
Get password?
Username
Password
ہوم
>
سوالات
>
سیاسی مسائل
مینو
<< واپس
قرطاس موضوعات
نئے سوالات
سب سے زیادہ پڑھے جانے والے
سوال پوچھیے
اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کا درجہ
سوال پوچھنے والے کا نام Faisal Naqvi
تاریخ:
20
اپریل
2005
- ہٹس: 1083
سوال:
کسی اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کی کیا حیثیت ھوتی ہے۔ کیا ان کے بھی وہی حقوق ہوتے ہیں جو کہ مسلمانوں کے ہوتے ہیں؟
جواب:
مذکورہ سوال تشریح طلب ہے۔ عام طور پر علماء کا خیال ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلم دو طرح کے ہوتے ہیں۔
1۔ ذمی ، جو کہ جنگ میں شکست کھانے کے نتیحے میں اسلامی ریاست کے زیرنگیں آئے ہوں۔
2۔ مستامن دارالحرب کے وہ غیر مسلم لوگ جو عارضی طور پر دارالاسلام میں رہائش پذیر ہوں۔
ہماری رائے میں یہ دونوں طرح کے لوگ نبیۖ اورصحابہ کے زمانے سے خاص تھے۔ چنانچہ ذمی اور مستامن کے بارے میں فقہی راء کا تعلق آج کے غیر مسلموں سے کسی طرح بھی نہیں بنتا۔
آج مسلم ملکوں کے غیر مسلم شہری میں صرف معاہدہ ہو سکتا ہے۔ ریاست کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے باہمی رضامندی سے ان غیر مسلم شہریوں سے ان کے حقوق کے ضمن میں کسی طرح کا بھی معاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ان کے ساتھ مابعد سارے معاملات اسی معاہدے کے تحت ہوں گے۔ اور معاہدوں کی پابندی مسلمانوں پر بہر حال لازم ہے ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی حالت میں بھی معاہدے کی خلاف ورزی نہ کریں۔ ایسی خلاف ورزی دین کی نظر میں شدید ناپسندیدہ ہے جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے: اپنے وعدوں کی پابندی کرو کیونکہ ان کے بارے میں تم سے روز قیامت پوچھ ہو گی (34: 17)
اسی طرح نبیۖ سے روایت ہے کہ آگاہ رہو کہ میں قیامت میں اس شخص کے خلاف خود مدعی بنوں گا جو کسی معاہد پر ظلم و ستم کرتا ہے یا اس کے حقوق میں کمی کرتا ہے یا اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالتا ہے یا اس کی مرضی کے خلاف اس سے کچھ لیتا ھے۔ (ابو دا د 3052)
قرآن نے تو مسلمانوں کو دشمنوں کے ساتھ بھی نا انصافی کرنے سے منع کیا ہے معاہدہ تو پھر بھی ان سے زیادہ حق دار ہیں۔
اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں انصاف سے دور نہ کر دے عدل کرو یہ تقوی سے زیادہ قریب ہے۔ ( 8۔ 5)
جہاں تک ان کے حقوق کا معاملہ ہے تو انہیں وہ تمام حقوق ملنے چاہئیں جو عدل و انصاف کا تقاضا اور کسی بھی مہذب معاشرے کا شعار ہوں۔ مثلا
ریاست کی طرف سے ان کی جان مال اور برو کی حفاظت کی ضمانت دی جائے۔
انہیں ان کے مذہبی معاملات میں آزادی دی جائے۔ اور ریاست کی طرف ان میں کسی قسم کی مداخلت نہ کی جائے بشرطیکہ وہ ریاست کے مفاد کے خلاف نہ ہوں۔
ان کے غرباء اور ضرورت مندوں کا باقی شہریوں کی طرح ہی خیال کیا جائے۔
ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے۔
انہیں حدود میں رہتے ہوئے اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت دی جائے۔
انہیں اپنے نمائندے چننے کی اور کلیدی سامیوں تک پہنچنے کی اجازت دی جائے سوائے ان سامیوں کے جن پہ ان کی تقرری ریاست کے مذہبی تشخص کے خلاف ہو۔
(شہزاد سلیم)
ترجمہ: صديق بخاري
Counter Question Comment
You can post a counter question on the question above.
You may fill up the form below in English and it will be translated and answered in Urdu.
Title
Detail
Name
Email
Note: Your counter question must be related to the above question/answer.
Do not user this facility to post questions that are irrelevant or unrelated to the content matter of the above question/answer.
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top