Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
 
Page 1 of 1

  Reply to Topic    Printer Friendly 

AuthorTopic
madyha

USA
Topic initiated on Friday, April 2, 2010  -  4:06 AM Reply with quote
tolerance


I dont know how much tolerance is possible amongst different faith people when every tries to preach their religion to the other one and convince them
shehzads

PAKISTAN
Posted - Friday, April 2, 2010  -  6:19 AM Reply with quote
I think it's about learning from each other, not convincing each other. I still meet my friends from my previous religion.
madyha

USA
Posted - Friday, April 2, 2010  -  6:51 AM Reply with quote
What about when we are preaching such as done by us as muslims or christians, arent you aware of that and when prophets came and were trying people to change and leave their previous religions and systems and rituals and customs
StudyingIslamUK

UNITED KINGDOM
Posted - Sunday, April 4, 2010  -  7:12 PM Reply with quote
Because they were Prophets of God, we are not
isfi22

PAKISTAN
Posted - Wednesday, May 26, 2010  -  4:17 PM Reply with quote
Very good and worthy topic but still thirsty. Guys! discuss this in detail, this is very important and valuable in current time and circumstances. Insha Allah i will express in detail my opinion and understanding in detail later in this regard.
isfi22

PAKISTAN
Posted - Monday, June 14, 2010  -  9:53 AM Reply with quote
ٹالرنس کیا ہے؟

ٹالرنس کا موضوع انسانی زندگی میں ویسے ہی بہت زیادہ معنویت و اہمیت رکھتا ہے ۔ کیوں کہ انسانی زندگی اپنے حقیقی معنوں میں ایک امتحان و آزمائش کا معاملہ ہے ۔ یہاں اس دنیا میں انسانوں کو خدا کی طرف سے فکر و عمل کی پوری پوری خودمختاری اور آزادی حاصل ہے ۔ اچھا سوچیں یا برا۔ درست خیالات اپنائیں یا نادرست تصورات۔ چاہے اچھا عمل کریں ، چاہے برا۔ چاہے لوگوں کے کام آئیں یا انہیں تکلیف و اذیت پہنچائیں ۔ خدا کے شکر گزار و فرمانبردار بن کر جییں یا ناشکرے اور نافرمان بن کر۔ انسانی ہمدردی و خیرخواہی کے جذبات و احساسات کے ساتھ زندگی گزاریں یا شیطانی خیالات و اقدامات کے ساتھ وغیرہ وغیرہ۔

پھر یہاں سرد و گرم حالات و تجربات سے سابقہ پیش آنا خدائی نقشہ سازی اور پلاننگ کا حصہ ہے ۔ فراوانی بھی آتی ہے اور تنگدامانی بھی لاحق ہوتی ہے ۔ صحت کی توانائیوں کے بین بین میں بیماری، بڑ ھاپے ، معذوری وغیرہ کی ناتوانیاں اور کمزوریاں بھی پیش آ جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ایسے میں جو چیز زندگی کو ممکن، رواں دواں اور قابل تحمل بناتی ہے وہ صبر و ٹالرنس ہی کی صفت ہے ۔ صبر و برداشت کوئی غیر فطری عارضہ نہیں ہے بلکہ فطرت کے نقشے سے مطابقت اختیار کرتے ہوئے ناقابل تغیر چیزوں اور اپنے اختیار و احاطے سے باہر حقائق اور سچائیوں کے ساتھ ایڈجسمنٹ کا نام ہے ۔ یعنی ان سے لڑ نا نہیں بلکہ ان کے ساتھ جینے کا حوصلہ پیدا کرنا۔ انہیں بدلنے پر اصرار کرنے کے بجائے ان کی رعایت کرتے ہوئے اپنے طریقے اور طرزِ عمل میں تبدیلی لانا۔

انسان جب انفرادیت سے نکل کر اجتماعیت اور ایک سوسائٹی کی شکل میں منظم زندگی گزارتا ہے اور مختلف انسانوں اور انسانی طبقوں کے درمیان فکر و عمل اور دین و مذہب کے اختلافات و امتیازار وجود میں آتے ہیں تو پھر یہ سوال بہت اہم اور متعلق بن جاتا ہے کہ ان کے درمیان کس طرح ہم آہنگی اور امن و امان کی فضا کو برقرار رکھا جا سکے اور باہمی بغض و نفرت، عناد و مخالفت اور شر و فساد کو وجود میں آنے سے روکا جا سکے۔ انسانوں کی تاریخ دین و مذہب کی بنیاد پر وجود میں آنے والے اختلافات اور ان کی بنیاد پر کیے جانے والے ظلم و ستم اور جور و جفا کی داستانوں کے حوالے بڑ ی خونچکاں تاریخ ہے ۔

ٹالرنس اسی سوال کا جواب اور اسی اہم مسئلے کا حل ہے ۔ ہم دوسروں کو کوئی خاص فکر رکھنے اور خاص طرزِ عمل اختیار اپنانے کے لیے مجبور نہیں کرسکتے اور نہ دوسرے کو حق ہے کہ وہ ہم پر اس طرح کے معاملات میں کوئی چیز ٹھونسنے اور لادنے کی کوشش کرے ۔ نہیں ، یہاں اس دنیا میں ہر ایک کو فکر و عمل کی پوری پوری آزادی ملی ہوئی ہے ۔ کوئی اس پر قدغن اور پابندی نہیں لگا سکتا۔ گو معاملہ دین و مذہب کے اختیار کا کیوں نہ ہو۔ کوئی زبردستی کرنے اور دوسرے سے اپنی منوانے کے لیے جبر سے کام لینے کا حق اور جواز نہیں رکھتا۔ ایک دوسرے کو اپنے مذہب کا پیغام پہنچانے اور اسے اس کی حقانیت کا قائل بنانے کی پر امن کوشش کرنے کا تو ہر ایک کو حق حاصل ہے لیکن بالجبر دوسروں کو اپنے مذہب کا قائل و معتقد بنانے کی مہم چلانے کا کسی کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ، بلکہ یہ سراسر خلافِ فطرت، خلافِ قانون اور خلافِ انسانیت رویہ ہے ۔ دیگر مذاہب اس باب میں کیا راے رکھتے اور تعلیم دیتے ہیں ، اس سے قطع نظر اسلام کا اس بارے میں صاف اور واضح اعلان ہے کہ کسی کو کسی دوسرے کی فکر و عمل کی آزادی پر قدغن لگانے کی اجازت نہیں ہے ، کوئی دوسرے کو کسی فکر کو قبول کرنے یا کسی عمل کو اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ انسان کو خدا نے پیدائشی طور پر خیر و شر کا الہام کر کے اس دنیا میں پوری آزادی کے ساتھ بھیجا ہے اور اس کا امتحان ہی یہی ہے کہ وہ اپنی خوشی، مرضی اور اختیار سے حق کے راستے کو اپناتا اور خیر کا علمبردار بن کر جیتا ہے یا باطل کا پرستار بنتا اور شیطانی کاروائیوں میں زندگی بتاتا ہے ۔ یہ خدا کا بنایا ہوا فطری امتحانی نقشہ ہے کسی انسان کے لیے جائز و روا نہیں ہے کہ وہ اس امتحانی نقشے میں تبدیلی لانے کی احمقانہ و باغیانہ کوشش کرے ۔

لوگ انسانی معاشروں بالخصوص اُس سوسائٹی میں جہاں مختلف پس منظر، تہذیب اور کلچر کے لوگ اکٹھے رہتے ہوں ، ہم آہنگی، موافقت اور امن و امان لانے کے لیے مذہبی یکسانی کا درس دیتے اور تمام مذہبی اختلافات اور فروق و امتیازات کو مٹا کر یا ان کا ایک ملغوبہ و مکسچر بنا کر ایک نیا مذہب ایجاد کرنے اور تمام لوگوں کو اس کا معتقد و پیرو بنانے کی باتیں کرتے ہیں ۔ یہ تجویز و تدبیر انسانی نفسیات و تاریخ سے سراسر ناواقفیت پر مبنی ہے ۔ کیوں کہ انسانوں کے درمیان لڑ ائی، جھگڑ ے اور فسادات و تنازعات خالی مذہبی و تہذیبی اختلافات کی بنیاد پر وجود میں نہیں آتے بلکہ یہ تو ایک ہی مذہب و تہذیب کے ماننے اور دم بھرنے والے طبقات کے درمیان بھی وجود میں آ جاتے ہیں ۔ ان کا باعث انسان کی جہالت، سرکشی اور آدابِ زندگی سے اس کی روگردانی ہے نہ کہ مذہبوں اور تہذیبوں کا فرق و اختلاف۔ معاشرے کے طبقات و افراد کے درمیان ہم آہنگی اور امن و بھائی چارہ وجود میں لانے کے لیے سب سے بنیادی چیز ٹالرنس اور باہمی احترام ہے ۔ یعنی ایک دوسرے کے مذہبی رجحانات کا احترام کیا جائے اور ہر ایک کی فکر و عمل کی آزادی کو تسلیم کیا جائے ۔ مشترک امور و معاملات میں تو قومی روایات و قانون کی پابندی و احترام سب پر لازم ہو لیکن کمیونل اور طبقاتی اور پرائیوٹ و عائلی معاملات میں تمام طبقات کو اپنے اپنے مذہبی رجحان و دینی تعلیم کے موافق اپنے معاملات چلانے کی آزادی دینا بھی ایک حد کے اندر اندر بہت ضروری ہے ۔

اسلام اس آزادی کا سب سے بڑ ا علمبردار ہے اور تاریخ میں اسی کے پیروکاروں نے اس باب میں سب سے زیادہ روشن و تابندہ عملی نقوش چھوڑ ے ہیں ۔ خدا نے ہر انسان کو آزادی دے کر ہی اُس کا امتحان لینا چاہا ہے ، اسی لیے اس نے اپنے پیغمبروں کو بھی بار بار یہ تاکید و یاددہانی کی ہے کہ وہ صرف پیغام پہنچانے والے اور خدا کا کلام و ہدایت اس کے بندوں تک پہنچانے والے ہیں ۔ داروغہ یا خدائی فوجدار نہیں ہے کہ منوا کر اور عمل کروا کر ہی چھوڑ یں ۔ لہٰذا کسی دوسرے کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی کے ساتھ زور وبردستی کرے بالخصوص مذہبی معاملات میں ۔

آج مسلمان جو اس تعلیم و روش کے خلاف اقدامات کر رہے اور اپنے نظریات و تصورات بیان کر رہے ہیں وہ اسلام کی پابندی و پیروی نہیں بلکہ اسلام کی مخالفت اور اس سے غداری کے ہم معنیٰ ہے ۔ یہ ایسے مسلمان مفکرین کی فکری و تعبیری کوتاہیاں ہی ہیں جو اس طرح کی باتیں بولتے اور لکھتے اور بیان کرتے اور دوسرے بہت سے مسلمانوں کو غلط افکار و اقدامات کی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں ۔ مسلمانوں کا کام صرف حق کے پیغام کو بے کم و کاست خالص و بے آمیز انداز میں اقوامِ عالم تک پہنچانا ہے ، ماننا نہ ماننا ان کا اپنا کام اور اختیار ہے ۔ اور اسی اختیار کے صحیح یا غلط استعمال پر ان کے امتحان کا مدار اور کل آخرت میں ان کی بازپرس کا انحصار ہے ۔ خدا نے کسی کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ جبر و ا کراہ کے بل پر دوسروں کو قائل کرتا پھرے اور ان سے طاقت کے بل پر کسی بات کا اعتراف کرانے کو جہاد کہہ کر اٹھ کھڑ ا ہو۔ایسی ہر سوچ خدا و دین سے بغاوت پر مبنی ہے اور ایسا ہر اقدام شیطانی سرکشی پر مبنی اقدام ہے چاہے اسے جہاد فی سبیل اللہ کا خوبصورت نام دے دیا گیا ہو۔

ٹالرنس کا مطلب باطل اور شر سے موافقت و سازگاری نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب لوگوں کو خدا کی طرف سے ملی ہوئی آزادی کا آزادانہ استعمال کرنے دینا ہے ۔ زور زبردستی اور جبر و ا کراہ کوئی جائز و مطلوب چیزیں ہوتیں تو خدا کو تو ان کے بغیر بھی لوگوں سے اپنی بات منوالینے اور اپنی اطاعت کروالینے کی طاقت حاصل ہے ۔ اُس نے کیوں نہ اپنی اس طاقت کا استعمال کیا اور لوگوں کو یونہی خوامخواہ میں یہ اختیار اور آزادی دے ڈالی کہ چاہے وہ اس کو مانیں یا جھٹلائیں ، حق پر چلیں یا باطل پر، فرمانبرادی کریں یا سرکشی اور رحمان کے بندے بن کر جییں یا شیطان کے چیلے اور کارندے بن کر۔

خدا کے پیغمبروں نے صبر و عزیمت کی جو عظیم و لافانی داستانیں رقم کیں ہیں اور انہیں جو بار بار مخالفین و مدعوئین کی ایذاؤں پر صبر کرنے کی تلقین و تاکید کی گئی ہے ، وہ اسی صورت میں معقول باتیں کہی جا سکتی ہیں جب ہم ہر ہر فردِ انسانی کے اس حق کو تسلیم کریں اور احترام و عزت دیں ۔ پیغمبروں کی زندگی میں ہجرات و براء ت وہ مرحلہ ہے جب وہ اپنی قوم کو یہ بتادیتے ہیں کہ اب وہ کسی لاعلمی و غلط فہمی کی بنیاد پر نہیں بلکہ سراسر ڈھٹائی و سرکشی کی بنیاد پر ان کا انکار اور مخالفت کر رہے ہیں ۔ اس اعلان کے بعد ہی وہ قوم خدا کے فیصلے کے مطابق ہلاک و برباد کی جاتی ہے ۔ اس سے پہلے پہلے عام لوگ تو دور رہے خدا کے پیغمبر بھی اپنے مدعوئین و مخالفین کی ایذاؤں ، شرارتوں اور مخالفتوں پر صبر کرتے اور تحمل و برداشت سے کام لیتے ہیں ۔ تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے کہ تلوار کی نوک اور طاقت کی چھڑ ی تلے کسی سے اسلام قبول کروایا اور کلمہ پڑ ھوایا گیا ہو۔ پیغمبروں کی براہِ راست اقوام میں سے جن کو الٹی میٹم دینے کے بعد اسلام یا موت میں سے کسی ایک آپشن کی چوائس دی گئی، اس کی صورت یہ نہیں تھی کہ عام لوگوں کے لیے اسلام کا قانون ہی یہ ہے کہ یا تو مسلمان بن کر جیو یا پھر مرنے اور کٹنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ بلکہ ان کا معاملہ یہ تھا کہ خدا کے رسول کے ذریعے اُن پر براہِ راست اتمامِ حجت ہو چکا تھا اور وہ حق کو جانتے بوجھتے محض ضد، سرکشی اور ڈھٹائی و استکبار کی بنیادوں پر اس کا انکارکر رہے تھے ۔ یہ دو آپشن والی صورت اِن لوگوں پر خدا کے عذاب کی ایک صورت تھی نہ کہ ہر طرح کے غیر مسلموں کے معاملے میں اسلام کے اصول و قانون کا ایک عملی مظاہرہ و نمونہ۔ عام غیر مسلموں کے لیے اسلام کی تعلیم و نمونہ یہی ہے کہ انہیں خدا کی طرف سے جو فطری آزادی ملی ہوئی ہے اس کا لحاظ و احترام کیا جائے اور اُن تک خدا کے کلام و دین کی محض واضح پیغام رسانی سے آگے بڑ ھ کر کوئی اقدام نہ کیا جائے ۔ اب قیامت تک چونکہ کسی رسول نے نہیں آنا، لہٰذا کوئی غیر رسول مسلمان بھی اس سے آگے بڑ ھ کر کسی اقدام کا حق و جواز نہیں رکھتا۔ اب قیامت تک صرف اور صرف غیر مسلموں تک خدا کے دین و پیغام کی پیغام رسانی اور ابلاغ ہے جو مسلمانوں کو کرنا ہے ۔ ماننا نہ ماننا غیرمسلموں کا اپنا کام ہے اور اس کے سلسلے میں وہ پوری طرح آزاد و خودمختار ہیں ۔ کسی کو اُن پر زور زبردستی کرنے اور کوئی چیز لادنے اور ٹھونسے کا کوئی حق نہیں ہے ۔

لہٰذا ایک مسلمان کو اسلامی تعلیمات کے مطابق سب سے زیادہ ٹالرنس پر عمل پیرا ہونا اور اس کا سب سے زیادہ محافظ و حمایتی ہونا چاہیے ۔ یہ باطل کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں بلکہ خدا کے قائم کیے ہوئے فطری نقشے کے اندر رہنا اور اس کی قائم کی ہوئی حدوں کا احترام کرنا ہے ۔ اس سے اعراض یا اس کے برخلاف عمل کرنا کسی مسلمان کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی مسلمان اس طرح کی کسی فکری و عملی کوتاہی میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ ایک غلطی ہی ہو گی اور اس مسلمان کو اس پر تنبیہہ ہی کی جائے گی۔ اور اگر مسلمان اگر بڑ ی تعداد میں اس طرح کے کسی فکر و عمل پر کاربند ہوجائیں تب بھی یہ ایک غلطی و لغزش ہی رہے گی، حلال و طیب اسلامی نمونہ نہیں بن جائے گا۔ اسلام کا اصل نمونہ اور صحیح اسلامی روش ٹالرنس اور انسانوں کو ملی ہوئی فکر و عمل کی آزادی کا مکمل احترام ہی رہے گا۔
safimera

CANADA
Posted - Tuesday, June 15, 2010  -  4:41 AM Reply with quote
A lot of wisdom in following qoutes.
I read them again and again to insert in my mind and heart deeply and strongly....

I wish we all understand and act accordingly:::

quotes:

quote:

I think it's about learning from each other, not convincing each other. I still meet my friends from my previous religion.


quote:

Because they were Prophets of God, we are not .


quote:

لہٰذا ایک مسلمان کو اسلامی تعلیمات کے مطابق سب سے زیادہ ٹالرنس پر عمل پیرا ہونا اور اس کا سب سے زیادہ محافظ و حمایتی ہونا چاہیے ۔ یہ باطل کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں بلکہ خدا کے قائم کیے ہوئے فطری نقشے کے اندر رہنا اور اس کی قائم کی ہوئی حدوں کا احترام کرنا ہے ۔ اس سے اعراض یا اس کے برخلاف عمل کرنا کسی مسلمان کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی مسلمان اس طرح کی کسی فکری و عملی کوتاہی میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ ایک غلطی ہی ہو گی اور اس مسلمان کو اس پر تنبیہہ ہی کی جائے گی۔ اور اگر مسلمان اگر بڑ ی تعداد میں اس طرح کے کسی فکر و عمل پر کاربند ہوجائیں تب بھی یہ ایک غلطی و لغزش ہی رہے گی، حلال و طیب اسلامی نمونہ نہیں بن جائے گا۔ اسلام کا اصل نمونہ اور صحیح اسلامی روش ٹالرنس اور انسانوں کو ملی ہوئی فکر و عمل کی آزادی کا مکمل احترام ہی رہے گ
Pastway

USA
Posted - Thursday, August 12, 2010  -  1:14 PM Reply with quote
Too often, interfaith dialogues center around "I am right, you are wrong" and not around finding out what common ground exists between the two groups. Although I understand that both sides are professing their interpretation of faith, I cannot believe that God would be pleased by people screaming His love at another almost as if a curse upon the offender.

I am reminded of a time when I lived in the Northeastern US. There, in the town of Salem, Massachusetts, there is a very strong community of Wiccans. For anyone not familiar with this religion, they worship the old Pagan gods and goddesses of Europe. As can be imagined, they often butt heads with the Christians of the area, most often with the Baptists, who have even on occasion kidnapped their children to baptize them in the name of God.

One fall I was in Salem, during the Wiccan holy day of Samhain, where they believe the gods ritually die, the earth goes to sleep, to be reborn on the Winter Solstice. A Wiccan priestess was standing on a street corner shouting and being shouted at by a Baptist preacher, she screaming ancient learnings (the Wiccans have no Holy Book, it is oral) and he bellowing Bible verses. I was saddened and upset, and approached them both, where he was accused of harrassing her and she was accused of bringing the wrath of God.

I asked the Wiccan priestess, "What is the deepest teaching of Wicca?" to which she replied, "All gods are one God, all goddesses are one Goddess, and the God and Goddess are One." The Baptist was shocked; he did not know this was what they believed. I asked him if he agreed that there was One God, and he said "Of course."

I asked them both if God would want them to harm others and the Wiccan priestess said "No, our tradition says "An' ye harm none, do as thou wilt". The Baptist replied, "Do unto others as you would have them do unto you".

At this time, they are both looking at each other in a new light, not having realized that at its heart, they believed the same things.

I asked the Wiccan what she thought about Jesus, and she replied that he was a very wise man who did great works in leading people on the path of Faith. The Baptist jumped on this and said, "Do you believe he died for your sins?" and she replied "No, but I also think our definition of "sin" differs".

When I left, the two had shook hands, introduced themselves, and were going to lunch together to discuss the nature of sin and pleasing the Divine.

Would that more discussion would take place like this, without the laying of blame, belittling other beliefs, and seeking to educate rather than chastise.
Sanwal

INDIA
Posted - Sunday, August 15, 2010  -  1:08 PM Reply with quote
Pastway,

Thou Puer Delicatus, …..!

Depuis des de nouveaux, des informations sur les dernières parutions et des.

ne prétends pas avoir percé tous les secrets de sa pensée, être diplômée ès existentialisme, ni connaître vraiment l'homme... Mais il est un jour entré dans mon cœur et n'en est plus sorti. fait partie de ceux qui m'ont donné envie d'être à mon tour un écrivain, et rendue modeste en même temps. Ces derniers mois, on a beaucoup parlé de camus, de ses engagements, de sa querelle avec Sartre, de sa passion pour le théâtre... mais pour moi c'est avant tout un auteur, qui a su créer des personnages de chair et de sang, des histoires fortes et universelles. Quand je pense à lui, je vois un homme debout à l'ombre d'un soleil aveuglant, une cigarette à la main, qui regarde vivre et trembler meursault, karrou, clamence et les autres, tous ces personnages qu'il a enfantés et qui, depuis, font partie de nous. Alors c'est de l'écrivain que je vais vous parler.

disait camus dans une interview en, à gtokholm où il venait recevoir le prix.

Tous. leursault, d'abord, cette homme qui affronte son destin presque sans mot dire, enterre sa mère sans pleurer, cet « étranger » qui dérange les autres par son apparente froideur devant la vie, qui refuse de s'agenouiller, de mentir. L'Etr est un profondément attachant en dépit de sa forme lapidaire, nue, qui offre aussi peu de prises que son personnages, et qui explose dans son dernier quart, montrant un homme pris dans les filets d'une justice théâtrale et arbitraire, un homme jugé non pas sur son véritable crime, mais sur le crime de n'avoir pas joué le jeu social qui lui aurait permis.
Pastway

USA
Posted - Sunday, August 15, 2010  -  3:11 PM Reply with quote
Sanway,

Unfortunately, I do not speak French. I tried using an online translator to understand what you have said, but I am afraid it translated rather poorly. My apologies that I cannot reply to the thought and effort that you obviously put into your post.
Pastway

USA
Posted - Monday, August 16, 2010  -  11:33 AM Reply with quote
quote:

Sanwal,

Unfortunately, I do not speak French. I tried using an online translator to understand what you have said, but I am afraid it translated rather poorly. My apologies that I cannot reply to the thought and effort that you obviously put into your post.


((Edited to correct a typo, my appologies))
saba2

PAKISTAN
Posted - Friday, August 20, 2010  -  1:58 PM Reply with quote
Pastway you are right most discussions end up I am right and you are wrong. The focus somehow shifts to differences though there are many similarities in most religions. The value system, the difference between good and bad not many faiths differ on the basic principles.
Isfendiyar english would have been a better mode of communication here, I know you find it difficult and you write so beautifully in urdu but some members would feel left out and not learn from you too. You said how Islam preaches tolerance but we as muslims are intolerant towards each other let alone people from other faiths. You also mentioned that Islam gives everyone the right to live his or her life as they choose, sadly you will not find this in any Muslim country....... I know this is where Revolution comes in.
Sanwal French.....?
Pastway

USA
Posted - Saturday, August 21, 2010  -  12:46 AM Reply with quote
Thank you very much, saba2, for your words here and also in the post in General Forums. Though I would say I for one do not feel so much left out of discussions, but more regretful that I do not speak or read languages such as Urdu so that I could read Isfi's words, as many folks here praise them! I'm looking forward to having time in the future to learn it, ishna'Allah. There are times however that I understand that others may choose to utilize other languages with the intent of causing confusion . . . to which I can only feel pity for those who feel they have to hide behind tongues to remain ahead in a conversation. *winks*
ashjamal

UNITED KINGDOM
Posted - Friday, December 24, 2010  -  2:42 AM Reply with quote
i think we can not just leave this responsibility of preaching with the words that those were prophets and we are not.... We all know that Muhammad pbuh was last prophet and there will be no prophet after him, so this is our duty to preach islam, and its also mentioned in quran. As far as tolerance is concerned, we can not fight or kill someone to make him agree, our job is only convey the message and rest leave in the hand of Allah. We can explain non-muslim with the quotations of their own books because they dont believe in Quran, but we cant fight with them. because in quran its mentioned in surah 2 in begining verses, that there are three kind of people, one who has open heart and they accepted islam, one who has close hearts , they listen, but they listen only to argue and even read your book but only to find something to prove they are right, and 3rd kind of people who are 50, 50%, when they go to non-muslims the say we are with you we making fool of muslims, and when they come to muslims, they say we are with you. so Allah says, they are actualy making their own selves fool, but they dont know. So we should see what kind of catagory this person has who we are talking to.... and then convey message and then its his responsiblity to decide in which catagory he or she wants to go (from above 3 catagories mentioned in surah baqarah), and smile and trust God. thanks
ashjamal

UNITED KINGDOM
Posted - Friday, December 24, 2010  -  2:47 AM Reply with quote
and i also would like to add, that Allah has rule that what ever we want to do he make things easy for us, if we want to understand he will make ways easy for us, if we dont want to understand and dont really have demand in our heart to know truth or crave to get right path, he will also leave us to do that, so its our choice to decide....... he gave us mind and power to think, later he will ask us on judgement day and then we have to answer, how we use his gift (mind.)

Reply to Topic    Printer Friendly
Jump To:

Page 1 of 1


Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker