Powered by UITechs
Get password? Username Password
 
 
<< Previous Page
1 2 3 4
Page 4 of 4

  Reply to Topic    Printer Friendly 

AuthorTopic
isfi22

PAKISTAN
Posted - Tuesday, June 8, 2010  -  10:56 AM Reply with quote
Dear and Respected Brother Safimera>>!!

Thanks for your nice comments and clarification about your concept and feeling concerning to Muslim History. Your Statement:

“but the real beauty I found that in spite of all mistakes and greediness of muslim rulers, ISLAM has nothing to do with that and the greatness of ISLAM still there , in spite of its followers' many wrongdoings...”

Is so enough for me, because I don’t want to defend any Muslim Ruler or any part of Muslim History as I have not detailed reading on this topic and also I have no interest in this matter. I only care about Islam and its greatness and authenticity etc.

So without objecting to any word or statement I thank U again and Allah Hafiz and Take Care.
isfi22

PAKISTAN
Posted - Friday, June 11, 2010  -  6:23 PM Reply with quote
This topic is hot and very very relevant to the current situation and Muslim image in the eyes of World. I think we should add other related points and discuss in detail contemprary thoughts and activities of the majority of Muslims to represent Islam and Muslim World and their world theory and idealogy.
isfi22

PAKISTAN
Posted - Monday, June 14, 2010  -  9:57 AM Reply with quote
ٹالرنس کیا ہے؟


[نیچے جس ٹاپک پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ اس کا تعلق انٹر فیٹھ ڈائیلاگ پورشن کے موضوع ٹالرنس سے ہے۔ یہ پوسٹ وہیں کے لیے تحریر کی گئی تھی۔ لیکن احساس تھا کہ یہ اس موضوع سے بھی کسی حد تک متعلق ہے لہٰذا اسے یہاں پوسٹ کرنا غیر موزوں نہ ہوگا۔ اسی لیے اسے یہاں بھی پوسٹ کررہا ہوں۔ شاید اسی ذریعے سے یہ اہم ایشو آگے بڑھ سکے اور شرکا اس کے دوسرے پہلوؤں پر مزید اظہارِ خیال کے لیے آمادہ ہوجائیں۔]


ٹالرنس کا موضوع انسانی زندگی میں ویسے ہی بہت زیادہ معنویت و اہمیت رکھتا ہے ۔ کیوں کہ انسانی زندگی اپنے حقیقی معنوں میں ایک امتحان و آزمائش کا معاملہ ہے ۔ یہاں اس دنیا میں انسانوں کو خدا کی طرف سے فکر و عمل کی پوری پوری خودمختاری اور آزادی حاصل ہے ۔ اچھا سوچیں یا برا۔ درست خیالات اپنائیں یا نادرست تصورات۔ چاہے اچھا عمل کریں ، چاہے برا۔ چاہے لوگوں کے کام آئیں یا انہیں تکلیف و اذیت پہنچائیں ۔ خدا کے شکر گزار و فرمانبردار بن کر جییں یا ناشکرے اور نافرمان بن کر۔ انسانی ہمدردی و خیرخواہی کے جذبات و احساسات کے ساتھ زندگی گزاریں یا شیطانی خیالات و اقدامات کے ساتھ وغیرہ وغیرہ۔


پھر یہاں سرد و گرم حالات و تجربات سے سابقہ پیش آنا خدائی نقشہ سازی اور پلاننگ کا حصہ ہے ۔ فراوانی بھی آتی ہے اور تنگدامانی بھی لاحق ہوتی ہے ۔ صحت کی توانائیوں کے بین بین میں بیماری، بڑ ھاپے ، معذوری وغیرہ کی ناتوانیاں اور کمزوریاں بھی پیش آ جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ایسے میں جو چیز زندگی کو ممکن، رواں دواں اور قابل تحمل بناتی ہے وہ صبر و ٹالرنس ہی کی صفت ہے ۔ صبر و برداشت کوئی غیر فطری عارضہ نہیں ہے بلکہ فطرت کے نقشے سے مطابقت اختیار کرتے ہوئے ناقابل تغیر چیزوں اور اپنے اختیار و احاطے سے باہر حقائق اور سچائیوں کے ساتھ ایڈجسمنٹ کا نام ہے ۔ یعنی ان سے لڑ نا نہیں بلکہ ان کے ساتھ جینے کا حوصلہ پیدا کرنا۔ انہیں بدلنے پر اصرار کرنے کے بجائے ان کی رعایت کرتے ہوئے اپنے طریقے اور طرزِ عمل میں تبدیلی لانا۔


انسان جب انفرادیت سے نکل کر اجتماعیت اور ایک سوسائٹی کی شکل میں منظم زندگی گزارتا ہے اور مختلف انسانوں اور انسانی طبقوں کے درمیان فکر و عمل اور دین و مذہب کے اختلافات و امتیازار وجود میں آتے ہیں تو پھر یہ سوال بہت اہم اور متعلق بن جاتا ہے کہ ان کے درمیان کس طرح ہم آہنگی اور امن و امان کی فضا کو برقرار رکھا جا سکے اور باہمی بغض و نفرت، عناد و مخالفت اور شر و فساد کو وجود میں آنے سے روکا جا سکے۔ انسانوں کی تاریخ دین و مذہب کی بنیاد پر وجود میں آنے والے اختلافات اور ان کی بنیاد پر کیے جانے والے ظلم و ستم اور جور و جفا کی داستانوں کے حوالے بڑ ی خونچکاں تاریخ ہے ۔


ٹالرنس اسی سوال کا جواب اور اسی اہم مسئلے کا حل ہے ۔ ہم دوسروں کو کوئی خاص فکر رکھنے اور خاص طرزِ عمل اختیار اپنانے کے لیے مجبور نہیں کرسکتے اور نہ دوسرے کو حق ہے کہ وہ ہم پر اس طرح کے معاملات میں کوئی چیز ٹھونسنے اور لادنے کی کوشش کرے ۔ نہیں ، یہاں اس دنیا میں ہر ایک کو فکر و عمل کی پوری پوری آزادی ملی ہوئی ہے ۔ کوئی اس پر قدغن اور پابندی نہیں لگا سکتا۔ گو معاملہ دین و مذہب کے اختیار کا کیوں نہ ہو۔ کوئی زبردستی کرنے اور دوسرے سے اپنی منوانے کے لیے جبر سے کام لینے کا حق اور جواز نہیں رکھتا۔ ایک دوسرے کو اپنے مذہب کا پیغام پہنچانے اور اسے اس کی حقانیت کا قائل بنانے کی پر امن کوشش کرنے کا تو ہر ایک کو حق حاصل ہے لیکن بالجبر دوسروں کو اپنے مذہب کا قائل و معتقد بنانے کی مہم چلانے کا کسی کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ، بلکہ یہ سراسر خلافِ فطرت، خلافِ قانون اور خلافِ انسانیت رویہ ہے ۔ دیگر مذاہب اس باب میں کیا راے رکھتے اور تعلیم دیتے ہیں ، اس سے قطع نظر اسلام کا اس بارے میں صاف اور واضح اعلان ہے کہ کسی کو کسی دوسرے کی فکر و عمل کی آزادی پر قدغن لگانے کی اجازت نہیں ہے ، کوئی دوسرے کو کسی فکر کو قبول کرنے یا کسی عمل کو اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ انسان کو خدا نے پیدائشی طور پر خیر و شر کا الہام کر کے اس دنیا میں پوری آزادی کے ساتھ بھیجا ہے اور اس کا امتحان ہی یہی ہے کہ وہ اپنی خوشی، مرضی اور اختیار سے حق کے راستے کو اپناتا اور خیر کا علمبردار بن کر جیتا ہے یا باطل کا پرستار بنتا اور شیطانی کاروائیوں میں زندگی بتاتا ہے ۔ یہ خدا کا بنایا ہوا فطری امتحانی نقشہ ہے کسی انسان کے لیے جائز و روا نہیں ہے کہ وہ اس امتحانی نقشے میں تبدیلی لانے کی احمقانہ و باغیانہ کوشش کرے ۔


لوگ انسانی معاشروں بالخصوص اُس سوسائٹی میں جہاں مختلف پس منظر، تہذیب اور کلچر کے لوگ اکٹھے رہتے ہوں ، ہم آہنگی، موافقت اور امن و امان لانے کے لیے مذہبی یکسانی کا درس دیتے اور تمام مذہبی اختلافات اور فروق و امتیازات کو مٹا کر یا ان کا ایک ملغوبہ و مکسچر بنا کر ایک نیا مذہب ایجاد کرنے اور تمام لوگوں کو اس کا معتقد و پیرو بنانے کی باتیں کرتے ہیں ۔ یہ تجویز و تدبیر انسانی نفسیات و تاریخ سے سراسر ناواقفیت پر مبنی ہے ۔ کیوں کہ انسانوں کے درمیان لڑ ائی، جھگڑ ے اور فسادات و تنازعات خالی مذہبی و تہذیبی اختلافات کی بنیاد پر وجود میں نہیں آتے بلکہ یہ تو ایک ہی مذہب و تہذیب کے ماننے اور دم بھرنے والے طبقات کے درمیان بھی وجود میں آ جاتے ہیں ۔ ان کا باعث انسان کی جہالت، سرکشی اور آدابِ زندگی سے اس کی روگردانی ہے نہ کہ مذہبوں اور تہذیبوں کا فرق و اختلاف۔ معاشرے کے طبقات و افراد کے درمیان ہم آہنگی اور امن و بھائی چارہ وجود میں لانے کے لیے سب سے بنیادی چیز ٹالرنس اور باہمی احترام ہے ۔ یعنی ایک دوسرے کے مذہبی رجحانات کا احترام کیا جائے اور ہر ایک کی فکر و عمل کی آزادی کو تسلیم کیا جائے ۔ مشترک امور و معاملات میں تو قومی روایات و قانون کی پابندی و احترام سب پر لازم ہو لیکن کمیونل اور طبقاتی اور پرائیوٹ و عائلی معاملات میں تمام طبقات کو اپنے اپنے مذہبی رجحان و دینی تعلیم کے موافق اپنے معاملات چلانے کی آزادی دینا بھی ایک حد کے اندر اندر بہت ضروری ہے ۔ اسلام اس آزادی کا سب سے بڑ ا علمبردار ہے اور تاریخ میں اسی کے پیروکاروں نے اس باب میں سب سے زیادہ روشن و تابندہ عملی نقوش چھوڑ ے ہیں ۔ خدا نے ہر انسان کو آزادی دے کر ہی اُس کا امتحان لینا چاہا ہے ، اسی لیے اس نے اپنے پیغمبروں کو بھی بار بار یہ تاکید و یاددہانی کی ہے کہ وہ صرف پیغام پہنچانے والے اور خدا کا کلام و ہدایت اس کے بندوں تک پہنچانے والے ہیں ۔ داروغہ یا خدائی فوجدار نہیں ہے کہ منوا کر اور عمل کروا کر ہی چھوڑ یں ۔ لہٰذا کسی دوسرے کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی کے ساتھ زور وبردستی کرے بالخصوص مذہبی معاملات میں ۔


آج مسلمان جو اس تعلیم و روش کے خلاف اقدامات کر رہے اور اپنے نظریات و تصورات بیان کر رہے ہیں وہ اسلام کی پابندی و پیروی نہیں بلکہ اسلام کی مخالفت اور اس سے غداری کے ہم معنیٰ ہے ۔ یہ ایسے مسلمان مفکرین کی فکری و تعبیری کوتاہیاں ہی ہیں جو اس طرح کی باتیں بولتے اور لکھتے اور بیان کرتے اور دوسرے بہت سے مسلمانوں کو غلط افکار و اقدامات کی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں ۔ مسلمانوں کا کام صرف حق کے پیغام کو بے کم و کاست خالص و بے آمیز انداز میں اقوامِ عالم تک پہنچانا ہے ، ماننا نہ ماننا ان کا اپنا کام اور اختیار ہے ۔ اور اسی اختیار کے صحیح یا غلط استعمال پر ان کے امتحان کا مدار اور کل آخرت میں ان کی بازپرس کا انحصار ہے ۔ خدا نے کسی کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ جبر و ا کراہ کے بل پر دوسروں کو قائل کرتا پھرے اور ان سے طاقت کے بل پر کسی بات کا اعتراف کرانے کو جہاد کہہ کر اٹھ کھڑ ا ہو۔ایسی ہر سوچ خدا و دین سے بغاوت پر مبنی ہے اور ایسا ہر اقدام شیطانی سرکشی پر مبنی اقدام ہے چاہے اسے جہاد فی سبیل اللہ کا خوبصورت نام دے دیا گیا ہو۔


ٹالرنس کا مطلب باطل اور شر سے موافقت و سازگاری نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب لوگوں کو خدا کی طرف سے ملی ہوئی آزادی کا آزادانہ استعمال کرنے دینا ہے ۔ زور زبردستی اور جبر و ا کراہ کوئی جائز و مطلوب چیزیں ہوتیں تو خدا کو تو ان کے بغیر بھی لوگوں سے اپنی بات منوالینے اور اپنی اطاعت کروالینے کی طاقت حاصل ہے ۔ اُس نے کیوں نہ اپنی اس طاقت کا استعمال کیا اور لوگوں کو یونہی خوامخواہ میں یہ اختیار اور آزادی دے ڈالی کہ چاہے وہ اس کو مانیں یا جھٹلائیں ، حق پر چلیں یا باطل پر، فرمانبرادی کریں یا سرکشی اور رحمان کے بندے بن کر جییں یا شیطان کے چیلے اور کارندے بن کر۔


خدا کے پیغمبروں نے صبر و عزیمت کی جو عظیم و لافانی داستانیں رقم کیں ہیں اور انہیں جو بار بار مخالفین و مدعوئین کی ایذاؤں پر صبر کرنے کی تلقین و تاکید کی گئی ہے ، وہ اسی صورت میں معقول باتیں کہی جا سکتی ہیں جب ہم ہر ہر فردِ انسانی کے اس حق کو تسلیم کریں اور احترام و عزت دیں ۔ پیغمبروں کی زندگی میں ہجرات و براء ت وہ مرحلہ ہے جب وہ اپنی قوم کو یہ بتادیتے ہیں کہ اب وہ کسی لاعلمی و غلط فہمی کی بنیاد پر نہیں بلکہ سراسر ڈھٹائی و سرکشی کی بنیاد پر ان کا انکار اور مخالفت کر رہے ہیں ۔ اس اعلان کے بعد ہی وہ قوم خدا کے فیصلے کے مطابق ہلاک و برباد کی جاتی ہے ۔ اس سے پہلے پہلے عام لوگ تو دور رہے خدا کے پیغمبر بھی اپنے مدعوئین و مخالفین کی ایذاؤں ، شرارتوں اور مخالفتوں پر صبر کرتے اور تحمل و برداشت سے کام لیتے ہیں ۔ تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے کہ تلوار کی نوک اور طاقت کی چھڑ ی تلے کسی سے اسلام قبول کروایا اور کلمہ پڑ ھوایا گیا ہو۔ پیغمبروں کی براہِ راست اقوام میں سے جن کو الٹی میٹم دینے کے بعد اسلام یا موت میں سے کسی ایک آپشن کی چوائس دی گئی، اس کی صورت یہ نہیں تھی کہ عام لوگوں کے لیے اسلام کا قانون ہی یہ ہے کہ یا تو مسلمان بن کر جیو یا پھر مرنے اور کٹنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ بلکہ ان کا معاملہ یہ تھا کہ خدا کے رسول کے ذریعے اُن پر براہِ راست اتمامِ حجت ہو چکا تھا اور وہ حق کو جانتے بوجھتے محض ضد، سرکشی اور ڈھٹائی و استکبار کی بنیادوں پر اس کا انکارکر رہے تھے ۔ یہ دو آپشن والی صورت اِن لوگوں پر خدا کے عذاب کی ایک صورت تھی نہ کہ ہر طرح کے غیر مسلموں کے معاملے میں اسلام کے اصول و قانون کا ایک عملی مظاہرہ و نمونہ۔ عام غیر مسلموں کے لیے اسلام کی تعلیم و نمونہ یہی ہے کہ انہیں خدا کی طرف سے جو فطری آزادی ملی ہوئی ہے اس کا لحاظ و احترام کیا جائے اور اُن تک خدا کے کلام و دین کی محض واضح پیغام رسانی سے آگے بڑ ھ کر کوئی اقدام نہ کیا جائے ۔ اب قیامت تک چونکہ کسی رسول نے نہیں آنا، لہٰذا کوئی غیر رسول مسلمان بھی اس سے آگے بڑ ھ کر کسی اقدام کا حق و جواز نہیں رکھتا۔ اب قیامت تک صرف اور صرف غیر مسلموں تک خدا کے دین و پیغام کی پیغام رسانی اور ابلاغ ہے جو مسلمانوں کو کرنا ہے ۔ ماننا نہ ماننا غیرمسلموں کا اپنا کام ہے اور اس کے سلسلے میں وہ پوری طرح آزاد و خودمختار ہیں ۔ کسی کو اُن پر زور زبردستی کرنے اور کوئی چیز لادنے اور ٹھونسے کا کوئی حق نہیں ہے ۔


لہٰذا ایک مسلمان کو اسلامی تعلیمات کے مطابق سب سے زیادہ ٹالرنس پر عمل پیرا ہونا اور اس کا سب سے زیادہ محافظ و حمایتی ہونا چاہیے ۔ یہ باطل کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں بلکہ خدا کے قائم کیے ہوئے فطری نقشے کے اندر رہنا اور اس کی قائم کی ہوئی حدوں کا احترام کرنا ہے ۔ اس سے اعراض یا اس کے برخلاف عمل کرنا کسی مسلمان کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی مسلمان اس طرح کی کسی فکری و عملی کوتاہی میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ ایک غلطی ہی ہو گی اور اس مسلمان کو اس پر تنبیہہ ہی کی جائے گی۔ اور اگر مسلمان اگر بڑ ی تعداد میں اس طرح کے کسی فکر و عمل پر کاربند ہوجائیں تب بھی یہ ایک غلطی و لغزش ہی رہے گی، حلال و طیب اسلامی نمونہ نہیں بن جائے گا۔ اسلام کا اصل نمونہ اور صحیح اسلامی روش ٹالرنس اور انسانوں کو ملی ہوئی فکر و عمل کی آزادی کا مکمل احترام ہی رہے گا۔


Edited by: isfi22 on Tuesday, June 22, 2010 8:35 AM

Reply to Topic    Printer Friendly
Jump To:

<< Previous Page
1 2 3 4
Page 4 of 4


Share |


Copyright Studying-Islam © 2003-7  | Privacy Policy  | Code of Conduct  | An Affiliate of Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top    





eXTReMe Tracker