Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Revolution
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][right][size=4][red]محترم سیفی میرا بھائی جان! آپ نے اپنی آخری پوسٹ میں جو دو نکتے اٹھائے ہیں کہ ہمارے اس پروگرام یا دعوت کے مخاطبین کون ہوں گے اور یہ کہ یہ انقلابی اسکیم نتیجہ خیز ہونے اور سماجی و معاشرتی پیمانے پر کسی بڑی تبدیلی کو ظہور پذیر کرنے میں کتنا وقت لے گی، ان کے حوالے سے عرض ہے کہ میں وضاحت سے یہ عرض کرچکا ہوں کہ اسلام میرے نزدیک اصلاً کوئی سیاسی، جہادی یا انقلابی اسکیم و پروگرام ہرگز نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے نسلِ انسانی کے افراد کو ہدایتِ ربانی سے بہرہ مند کرکے آنے والی ابدی حیات و دنیا میں فیروزمند و کامران بنانے کی سبیل و رہنمائی ہے۔ جس تناظر میں میں نے اسلام یا کسی بھی دوسرے نظریۂ زندگی کے کسی سماج و سوسائٹی میں تبدیلی یا انقلاب لانے کی بات کی تھی وہ یہ تھا کہ مسلمان ایک طویل وقفے سے اسلام کو سماجی انقلاب برپا کرنے کا نظریہ باور کرکے اس نصب العین کے لیے کوشاں اور اس منزل کو پانے کے لیے جہادی و جنگی کاروائیوں میں مصروف و سرگرداں ہیں۔ اس تناظر میں میں نے یہ بات سامنے رکھی تھی کہ اگر اسی مقصد کو پیشِ نظر رکھا جائے کہ کسی معاشرے میں اسلام کو غالب فکر و طریقِ زندگی اور اس کے قانون و شریعت کو وہاں کے سماجی نظم میں بالادست و مروج بنایا جائے تو اس کے لیے بھی تشدد اور جبر کا طریقہ سراسر نادرست و ضرر رساں ہے۔ اس مقصد کےلیے بھی ہمیں پرامن فکری جدوجہد اور لوگوں کی اسلامی بنیادوں پر تعلیم و تربیت و اصلاح ہی کے راستے پر چلنا پڑے گا۔ اس طریقِ عمل پر گامزن ہوکر اگر معاشرے کی اکثریت کو اسلامی رنگ میں رنگانے اور اسلامی سانچے میں ڈھلانے میں کامیابی میسر ہوئی تو پھر یہ اکثریت اور ان کی حمایت و پشت پناہی اس بات کی ضامن بن جائے گی کہ اُس سوسائٹی میں نہ صرف لوگوں کی انفرادی زندگیوں میں اسلام روبعمل ہو بلکہ وہاں کے اجتماعی ماحول و نظام میں بھی اسلام آپ سے آپ غالب و رائج ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے یہ بات بھی پوری شرح و بسط کے ساتھ سامنے رکھی تھی کہ اسلام اصلاً اس مقصد کو ہمارا نصب العین نہیں قرار دیتا بلکہ وہ افرادِ انسانی کی اس دنیا میں نفسی و قلبی و روحانی تطہیر اور اس کے نتیجے کے طور پر آخرت میں خدا کی خوشنودی اور جنت کی مستحقی ہی کو بطورِ ٹارگٹ و نشانہ ہمارے سامنے لاتا ہے۔ لہٰذا جب یہ بات پوری طرح مبرہن اور ثابت ہے کہ اسلام اصلاً فرد کی اخروی فلاح و کامرانی کا راستہ ہے تو پھر اس راستے کو ہمیں ہر ہر فردِ انسانی کے سامنے رکھنا ہے۔ ہر فردِ نسلِ انسانی خدا کا بندہ اور موت کے بعد قیامت کے روز اس کی بارگاہ میں پیش ہونے والا ہے اور اس کی زندگی کی شکل میں بھی خدا کی وہی تخلیقی اسکیم روبعمل آرہی ہے جو انسانوں کو اس زمین پر بسانے کے باب میں خدا کے پیشِ نظر ہے لہٰذا بالکل واضح بات ہے کہ ہمیں اسلام کے پیغام و تعلیمات کو ہر ہر فردِ انسانی کے سامنے رکھنا اور اسے خدا کی بندگی، اس کے رسولوں کی پیروی اور آخرت کی فکر و تیاری کرتے ہوئے زندگی گزارنے اور دنیا میں صالح اعمال و اخلاق و اقدار اختیار کرنے کی دعوت دینی اور تلقین و نصیحت کرنی ہے۔ جو لوگ مسلمان ہیں لیکن کسی بھی وجہ سے وہ اسلام کی ان بنیادی تعلیمات سے روگرداں یا اسلام کی غلط تعبیرات سے مغلوبیت کے نتیجے میں نادرست سوچ و کردار و اقدامات کا شکار ہیں انہیں بھی ہمیں انہی باتوں اور اسی صحیح اسلامی راستے کی طرف لانے کی کوشش کرنی ہے اور جو لوگ غیر مسلم ہیں اور سرے سے اسلام ہی سے ناآشنا ہیں ان کے حوالے سے بھی ہمارا فرض یہی ہے کہ ہم اپنی حیثیت اور دائرۂ ذمہ داری کے اعتبار سے ان تک اسلام کی تعلیمات اور اس کا پیغام ان کی زبان و اسلوب و معیار پر پہنچائیں اور ان کے سوالات و اشکالات کا جواب فراہم کرنے کی حتی المقدور سعی کریں۔ ہمیں اس کے لیے ہر ہر سطح پر کوشش ہی کرنی ہے نتائج و اثرات برپا کرلینا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ ہمارا کام بس یہ ہے کہ ہم اسلام اور اس کے پیغام کو اپنی اپنی حدود میں اپنے اپنے مدعوئین تک پوری وضاحت و بے آمیزی کے ساتھ پہنچانے کے لیے میدان میں کوشاں رہیں، انہیں ہدایت دینا اور ہمارا دوست و ہمراہی اور جنت کے راستے کا مسافر بنانا اور ہماری ان دعوتی و تبلیغی کوششوں کو کسی بھی حد تک ثمر بار کرنا خداوند تعالیٰ کا کام ہے۔ وہ اپنی حکمت و تدبیر اور مرضی و مشیت کے مطابق جو چاہے گا اس معاملے میں کرے گا۔ ہمیں بس اپنے کام سے کام رکھنا اور اسے پوری ذمہ داری و تندہی سے سرانجام دیتے رہنا چاہیے۔ آپ کے دوسرے نکتے کا جواب بھی گو مذکورہ پیرے میں ضمنا آہی گیا ہے تاہم بات چونکہ سماجی پیمانے پر تبدیلی کے رونما ہونے اور اس میں نامعلوم مدت صرف ہونے کی ہورہی ہے اس لیے میں الگ سے اس کے حوالے سے یہ عرض کروں گا کہ یہ بات بہت اچھی طرح ایک مرتبہ پھر سمجھ لیجیے کہ سماجی پیمانے پر کسی تبدیلی کو واقع کردینا یا اسلامی تعلیمات و اثرات کے حامل کسی قسم کے سماجی انقلاب کو برپا کردینا کوئی اسلامی نشانہ اور مؤمنانہ ٹارگٹ سرے سے ہے ہی نہیں۔ ایک فردِ مسلم کو جو کوشش کرنی ہے وہ بس یہ ہے کہ وہ خود کو، اپنے بیوی بچوں اور متعلقین کو آخرت کے دن خدا کی ناراضی اور پکڑ سے بچانے کی کوشش کرے اور اسی پیغام یعنی خدا کی گرفت سے خود کو اور اپنے احباب کو بچانے کے پیغام کو اپنے دائرے اور حلقے میں عام کرنے اور پھیلانے کی کوشش کرے۔ اس کے اثرات و نتائج لوگوں کی انفرادی زندگیوں اور بحیثیت مجموعی کسی سماج و معاشرے میں کیا مرتب ہوں گے اس بارے میں اسے پریشان و فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ یہ اس کا دائرہ و کنسرن ہی نہیں ہے بلکہ ایک خدائی معاملہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات جو آپ نے ارشاد فرمائی ہے کہ جن لوگوں میں برداشت موجود نہیں ہے اور وہ آزادیٔ اظہار رائے کو ہر ایک کا حق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، انہیں تعلیم و تربیت دے کر اپنے مطلوب مقاصد کو حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ تو جناب ہم بھی تو یہی سمجھتے اور بار بار عرض کرتے رہے ہیں کہ ہمیں لوگوں میں یہ اور ان جیسی دوسری اقدار اور خوبیاں رواج دینی اور تعلیم و تربیت کے ذریعے انہیں تحمل و برداشت اور آزادیٔ اظہار کے اوصاف سے مزین و آراستہ کرنا ہے۔ جن لوگوں میں یہ صفات مفقود ہوں، ان سے مایوس و متنفر ہونے کے بجائے ہمیں ان کے اندر یہ اوصاف پروان چڑھانے اور انہیں بھی آزادیٔ فکر کی نافعیت اور برداشت و تحمل کی لزومیت کا قائل بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ چیزیں کسی صحیح نظریے کی دین نہیں ہوتیں بلکہ کج فکری اور جذباتیت اور اپنے نقطۂ نظر سے دلائل کے زور و قوت کے بجائے تعصب و گروہی حمیت کے راستے سے پیوستہ ہونے کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ یہ ایک بگاڑ و فساد ہے جسے ہمیں دوسری برائیوں کی طرح ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسلام اپنے ماننے والوں میں ہرگز یہ پست و نامعقول خصوصیات پیدا نہیں کرتا۔ ہاں اسلام کے نام پر کسی کج فکر کے نظریات و ارشادات و خطبات اگر لوگوں میں یہ خرابیاں پروان چڑھائیں یا بہت سے مسلم مفکرین کے خیالات کا انحراف بڑے پیمانے پر مسلمانوں میں ان رویوں کی ترویج و تنفیذ کا ذریعہ بن گیا ہو تب بھی ہمیں بے حوصلہ، اسلام سے بدظن یا لوگوں سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمارا کام و عزم یہ ہونا چاہیے کہ ہم اسلام کے اصل مصادر و تعلیمات کو بدلائل سامنے رکھتے ہوئے یہ واضح کریں کہ اسلام عدمِ برداشت کی نہیں بلکہ برداشت کی تلقین کرتا اور آزادیٔ اظہار پر قدغن لگانے کے بجائے اس کی زبردست طریقے سے حوصلہ افزائی اور تحسین فرماتا ہے۔ ہمیں اچھی طرح یہ جان اور سمجھ لینا اور اپنے دل، دماغ اور ذہن و فکر میں بٹھا لینا چاہیے کہ ہمارا کام کوشش اور جدوجہد ہے، نتیجہ خیزی اور انفرادی یا سماجی پیمانے کی تبدیلی و اثر انگیزی کا ظہور و وقوع خدا کی مشیت پر منحصر ہے۔ آپ اپنا کام کرتے رہیے اور خدا کے کام کو اس کے حوالے کردیجیے، وہ زیادہ بہتر طور پر اپنا کام کرلے گا۔ [/red][/size=4][/right][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top