Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Revolution
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][size=4][right][red]برادرم سیفے میرا، آداب و تسلیمات و احترامات۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے ارشادات کے جواب میں ادب و اکرام کے ساتھ ذیل کی گزارشات پیشِ خدمت ہیں۔۔۔۔۔۔۔ طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے متأثرہ افراد و خاندان نہ صرف پاکستان کے تمام رہنے والوں بلکہ دنیا بھر کے انسانی ہمدردی و غمگساری کے جذبات رکھنے والے انسانوں کے تعاون و دعاگوئی اور مدد و ہمدردی کے مستحق ہیں۔ کوئی بھی انسانی آفت ہو۔۔۔۔۔ زلزلہ، سیلاب، دہشت گردی کا سانحہ، جنگی حادثہ، وبائی امراض وغیرہ، ان کا شکار بننے والے عام انسان ہر طرح کی ہمدردی، تعاون اور غمگساری کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ہر فرد اور طبقے کو اپنی بساط و استطاعت بھر تعاون و نصرت کرنی چاہیے۔ مالی، اخلاقی، جانی، وقتی، طبی، سہولیاتی، ماحولیاتی، جذباتی، آبادکاری اور اشیاے خور و نوش وغیرہ جیسی بنیادی ضروریات کی ترسیل کی مختلف شکلوں میں۔ الحمد للہ پاکستانی قوم گو کہ موجودہ عالمی معیارات پر اپنے معیشت و سیاست جیسے نظاموں کو استوار کرنے اور دنیا کی مؤثر و طاقتور قوموں کی صف میں ممتاز و نمایاں جگہ پانے میں کامیاب نہ ہوسکی، کیوں کہ اسے مخلص و وفادار و بے غرض و انسانیت دوست لیڈران و قیادت نصیب نہ ہوسکے، تاہم ان میں جذبۂ حب الوطنی اور انسانی ہمدردی و خیرخواہی جیسی خصوصیات قابلِ رشک و فخر حالت میں موجود ہیں۔ گرچہ عالمی طور پر غالب فلسفوں اور طریقۂ ہائے حیات کے عمومی اثرات نے پاکستانی مسلمانوں کو بھی اپنی انفرادی زندگی میں خود غرض، مفاد پرست، بے حس، ذاتی خول کا رسیا اور قومی و اجتماعی مقاصد و مفادات کو اہمیت دینے سے عاری بنارکھا ہے، تاہم آسمانی و زمینی آفت کی تباہ کاریوں اور قوم و افرادِ قوم کے کسی بڑی مصیبت و آفت میں مبتلا ہوجانے کی صورت میں ان کی حب الوطنی اور انسانیت دوستی کسی ثبوت کی محتاج نہیں رہتی اور ایسے مواقع پر ان کے اندر کا سویا ہوا شریف و نیکوکار انسان ایکدم سے جاگ اٹھتا اور متحرک و فعال بن جاتا ہے۔ میری دلی آرزو اور دعا ہے کہ خدا اس اچھے، سیدھے سادھے اور انسانیت، بے لوثی، قربانی، ایثار، بلند ہمتی، حوصلہ مندی، ہمدردی و خیرخواہی اور انسانیت سے مالا مال انسان کو ہر ہر پاکستانی اور دوسرے انسانوں کے اندر سدا کے لیے جگا دے اور سرگرم کردے، آمین۔ دورِ رواں اور حیاتِ موجودہ کی طوفانی تیزرفتاریوں اور زلزلہ خیز اختصار و اشارہ پسندیوں سے میں بھی کسی حد تک واقف و باخبر ہوں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان اپنے جذبات و احساسات اور انسانی حادثات و واقعات کے بیان و تذکرے میں بھی اتنا اختصار پسند و اشارہ باز ہوجائے کہ ساری داستان الاپ لینے کے بعد بھی اسے یہ محسوس ہو کہ شاید اس داستان کا حق ادا نہیں ہوسکا اور اس کے فلاں فلاں اہم و کلیدی حصے زیرِ ذکر آنے سے رہ گئے۔ ویسے بھی حکیمانہ ارشادات اور دریا کو کوزے میں سمیٹ لینے والے مختصر جملے دریافت و تحریر کرپانا میرے جیسے ناکارہ و اناڑی لکھاڑی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ ہم تو ادائے مطلب و مدعا کے لیے مجبور ہیں کہ طول بیانی اور کثرتِ تحریر سے اچھی خاصی طرح کام لیں۔ یقیناً لوگوں اور ہمارے پاس وقت کم ہے لیکن یہ کوئی خوبی اور کمال کی بات نہیں ہے کہ آج لوگوں کی، دنیا اور اس کی سرگرمیوں اور معاملات کے ساتھ دلچسپی و حساسیت اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ ان کے پاس دینی موضوعات پر سر دھننے اور مفید و تخلیقی سرگرمیوں میں لگانے کے لیے بہت ہی کم اور مختصر وقت رہ گیا ہے۔ یہ کوئی قابلِ اطمینان کیفیت نہیں ہے بلکہ یہ خدا و آخرت، موت و قیامت اور زندگی کے زیادہ بڑے اور گہرے حقائق کے معاملے میں لوگوں کی بے اعتنائی، غفلت، بے حسی اور مردہ جذباتی کی دلیل اور نہایت قابلِ افسوس و تشویشناک حالت و واقعہ ہے۔ آپ جب کسی کو خیالی فلسفے نشر کرنے اور ناممکن الوقوع پلانز پیش کرنے والا کہتے ہیں یا اس کے منصوبے کے بارے میں یہ فیصلہ دیتے ہیں کہ یہ سرے سے قابلِ عمل ہی نہیں ہے یا ہے تو اس کے بارے میں یہ کہنا بالکل غیریقینی ہے کہ یہ اتنے اور اتنے عرصے اور آدھی یا پوری ایک صدی میں بھی نتیجہ خیز ہوسکے گا، اس بیان میں اور اس کے خیالات کو نادرست و غلط ٹھہرانے میں کوئی خاص فرق و فاصلہ باقی نہیں رہ جاتا۔ انقلاب کے حوالے سے میرے نظریات اور سماج و سوسائٹی میں تبدیلی رونما کرنے کے حوالے سے میرے پیش کردہ لائحۂ عمل کو آپ موجودہ حالات میں جبکہ لوگ بے دلیل تقلید اور اندھی پیروی کے خوگر ہیں، نئے خیالات اور اپنے سے مختلف افکار و تحقیقات کے لیے اپنے اندر بالکل بھی تحمل و برداشت نہیں رکھتے اور اپنے ذہنی رویے کے پہلو سے نہایت ہی فرسودہ اور گرے ہوئے مقام و سطح پر جی رہے ہیں، خیالی جنت کی نقشہ گری یا تصوراتی کوہ قاف کی افسانہ طرازی یا رومانوی پرستان کی داستان سرائی قرار دیتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جس کے حوالے سے میں نے آپ کو توجہ دلائی تھی کہ موجودہ حالت و کیفیت میں کھڑے ہوکر جب آپ میرے پیش کردہ خیالات کا جائزہ لیتے ہیں تو آپ کو ان کے حوالے سے سوائے یاس و تاریکی کے، روشنی کی ایک بھی کرن و جھلک نظر نہیں آتی۔ لیکن اگر آپ ماضی کی داستانوں اور تاریخ کے حقیقی قصوں اور خود اللہ کے جلیل القدر پیغمبروں کی زندگیوں کی روشنی میں ان باتوں کا مطالعہ فرمائیں گے تو آپ کو یہی نظر آئے گا کہ انسانیت کے سفر میں جو بڑی بڑی تبدیلیاں اور دور رس اثرات و تغیرات کے حامل واقعات پیش آئے ہیں، ان کی ابتدا میں کوئی تازہ فکر و فلسفہ ہوتا تھا جو اس دور و علاقے کے لوگوں کے دل و دماغ میں گھر کرتا اور انہیں اپنا گرویدہ و معتقد بناتا اور آہستہ آہستہ ان کے وجود کے رگ و پے میں اتنا گہرا اتر جاتا تھا کہ پھر ان کے سماج میں کسی اور نظریے کا چھائے اور طاقت و اقتدار پر قبضہ جمائے موجود رہنا محال و ناممکن ہوجاتا تھا۔ جب لوگوں کے دل اور دماغ اور ارواح مفتوح و مغلوب ہوجاتے اور وہ فکر و فلسفہ ان کے لیے سب سے زیادہ مؤثر و مہمیز محرک بن جاتا تو آپ سے آپ ان کے اجتماعی ماحول و نظام اور ادارات میں وہ جلوہ گر ہوتا اور اسی کا قانون اور دستور اس سوسائٹی میں رائج و نافذ اور معمول بہ بنتا چلا جاتا۔ خدا کے جلیل القدر رسولوں کی طرف آئیے، یہ بلند و پاکیزہ ہستیاں گھپ اندھیروں میں اپنے حصے کا چراغ جلاکر سرِ راہ کھڑے ہوجاتے تھے۔ شرک و اوہام اور کفر و ضلات کی وادیوں میں سرگرداں لوگوں کو توحید و بندگی اور آخرت کی زندگی کی حقیقتوں سے شناسا بناکر ان کے تن من میں اجالا کرتے تھے۔ ان کی دعوت و تربیت جب لوگوں میں خدا پرستی، آخرت ترسی، اخلاقی پاکیزگی جیسی بنیادی چیزوں کا شعور راسخ کرتی اور ان کے عمل کو انہی اساسات پر استوار کردیتی تو پھر ان کے ہاں بھی فطری و تدریجی طریقے سے خداپرستانہ ماحول و نظام ابھرنا اور اپنے اطراف و اکناف کا احاطہ کرنا شروع کردیتا تھا، تاآنکہ ان کی اجتماعیت اسلامی شریعت و قانون کے تابع آجاتی اور وہاں خدا کا قانون اور اس کے دین کے زیرِ اثر تہذیب و تمدن جاری و رواں ہوجاتے۔ اِس وقت ہوا یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے سے مسلمانوں کے افکار و نظریات بگاڑ و انحراف کا شکار اور ان کی سرگرمیاں اسلامی دعوت کے بجائے دوسرے دوسرے عنوانات و موضوعات کی تفسیر بنی ہوئی ہیں۔ اس وقت جو فکر مسلمانوں کے مابین سب سے زیادہ مشہور و مقبول اور جو تحریک و سرگرمی ان کے ہاں سب سے بڑی اور نمایاں عملی حقیقت بنی ہوئی ہے وہ جنگ و جہاد اور تشدد و قتال پسندی کی سوچ اور طرزِ عمل ہے۔ مسلمان اپنے منحرف مفکرین اور ناعاقبت اندیش و بے بصیرت رہنماؤں کے زیرِ اثر ساری دنیا کے غیر مسلموں کو اپنا دشمن و حریف سمجھتے اور ان سے بے شمار طرح کے قلمی، لسانی، عملی اور سیاسی تنازعات کھڑے کیے ہوئے ہیں۔ وہ سارے انسانوں سے محبت کرنے کی اسلامی تعلیم و روش کو ترک کرکے الٹا ان سے بغض و نفرت اور عناد و عداوت کے جذبات کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ اس وقت مجموعی طور پر مسلم فکر و عمل اسلام کے بالکل برخلاف و برعکس شکل و حالت اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس تناظر میں کھڑے ہوکر دیکھنے اور غور و فکر کرنے والے کو پرامن فکری جدوجہد اور ذہنی بیداری و قلبی تبدیلی لانے کی جدوجہد کی بات بڑی اوپری اوپری اور افسانہ پسندی و فلسفیانہ خیال طرازی معلوم و محسوس ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کا موجودہ فکر و عمل گہرے طور پر اصلاح و تصحیح کا متقاضی ہے۔ اسلام جہاد و جدال کا دین نہیں بلکہ امن و محبت کا دین ہے۔ وہ زور زبردستی لوگوں پر ٹھونسا نہیں جاتا بلکہ اپنی تعلیمات و خصوصیات سے ان کے دل، دماغ، روح اور جذبات کو مغلوب کرکے ان کی زندگی میں اپنی جگہ بناتا ہے۔ وہ لوگوں سے نفرت کرنا نہیں بلکہ پیار و ہمدردی کرنا سکھاتا ہے۔ وہ غیرمسلموں کو مسلمانوں کا حریف و رقیب نہیں ٹھہراتا بلکہ انہیں مسلمانوں کا مدعو اور ان کی خیرخواہی کا مستحق قرار دیتا ہے۔ وہ اندھا دھند کسی کے پیچھے چل پڑنے کی تربیت نہیں دیتا بلکہ انسان کی فطری و عقلی اسلوب میں تربیت کرکے اسے عقلی و استدلالی انداز میں باتوں پر غور کرنے، ان کا جائزہ لینے، ان کا تجزیہ کرنے اور دلائل و شواہد کی بنیاد پر مختلف آرا کے باب میں رد و قبول کا عادی بناتا ہے۔ یہی وہ باتیں اور روایات ہیں جو آج مسلمانوں نے نظر انداز کردی ہیں۔ یہی وہ اصول، رویے اور خیالات ہیں جن کا آج مسلمانوں کے ہاں چلن و رواج ختم ہوگیا ہے۔ انہی اسلامی تعلیمات اور مؤمنانہ روایات کو ہمیں زندہ کرنا اور مسلمانوں کے فکر و عمل کا مرکزی حصہ بنانا ہے۔ فکر و عمل کو ازسرِ نو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر تشکیلِ نو دینے کا یہی وہ کام ہے جو ہمیں اپنی اپنی استطاعت و صلاحیت کے بقدر پوری تندہی، لگن اور محنت سے انجام دینا ہے۔ اسی سے مسلمانوں کے ذہن و کردار میں تبدیلی اور انقلاب آئے گا۔ ہمیں انہیں جہاں عمومی عالمی لہر کے دنیاپرستانہ و مفادپرورانہ اثرات سے بچانا ہے وہیں انہیں اسلام کے نام پر پھیلے ہوئے غلط و کج افکار و معمولات کے دائرے سے بھی دور لے جانا ہے۔ فکر و عمل کی تصحیح اور ازسرِ نو اسلامی اساسات پر تعمیرِ نو کا یہ مشن ہی آج ہر ہر مسلمان کا دینی مشن ہونا چاہیے۔ اسی کے لیے اسے سونا جاگنا، کھانا پینا اور مرنا اور جینا چاہیے۔ اس کی تمام سعی و کاوش اور محنت و قربانی کا مرجع یہی کام و میدان ہونا چاہیے۔ جب اسلام و ملت کا درد رکھنے والے بہت سے مسلمان انفرادی و اجتماعی طور پر ان باتوں کی قدر و اہمیت سے آشنا ہوکر اس مشن کو ایک عمومی تحریک بنادیں گے تو پھر اسلام کے مسلمانوں کے فکر و عمل میں پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہونے اور مسلمانوں کے معاشروں میں اسلامی قانون و شریعت کے نفاذ و رواج کے سلسلے کے بے روک ٹوک جاری ہوجانے کی منزل بھی ہمیں کانوں سے سنائی، آنکھوں سے دکھائی اور واقعہ و حقیقت کی شکل میں جلوہ گر محسوس ہوجائے گی۔ باقی آپ نے مثالوں کی صورت میں مجھے کسی صوفی منش یا شیعہ مسلک مسلمان کو ٹارگٹ کرکے اصل اسلامی تعلیمات کے حوالے سے اسے قائل کرنے اور اپنے کھینچے ہوئے انقلابی نقشے کا حامی و پشت پناہ بنانے کی کوشش کرنے کی جو مشق تجویز کی ہے تو اس سلسلے میں گزارش ہے کہ میں کسی کا مسلک و مشرب تبدیل کرانے کی بات ہی نہیں کررہا بلکہ میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ اس وقت مسلمان بحیثیتِ مجموعی انحراف کی روش پر گامزن ہیں۔ چاہے ان کا تعلق کسی بھی مسلک و مشرب سے ہو۔ ان کی ذہنیت، سوچ، خیالات اور عملی اقدامات جس عمومی مسلم سوچ و تحریک پر مبنی ہیں وہ جہاد و قتال اور جنگ و تشدد کا تصور اور اس کی بنیاد پر وجود میں آنے والے افکار و معمولات ہیں۔ آج کا مسلمان یہ خیال کرتا ہے کہ ہمیں تبلیغ و تلقین اور تعلیم و تربیت کے بجائے ڈنڈے، کوڑے اور گولی اور بم کی نوک پر لوگوں سے اپنی بات منوانی اور انہیں اپنے نقطۂ نظر کا قائل بنانا ہے۔ ہمیں تشدد، زور، جبر و اکراہ اور طاقت کے بل بوتے پر اسلامی شریعت و قانون کو سوسائٹی میں جاری و نافذ کرنا ہے۔ میرے خیالات بنیادی طور پر اس سوچ و ذہنیت کی تردید تھے۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا تھا کہ بحیثیتِ مسلمان کسی معاشرے میں اسلامی تبدیلی لانے اور اسلام کے قانون و شریعت کو رواج دینے کے لیے ہمارا ہتھیار و ذریعہ جبر و تشدد نہیں بلکہ تعلیم و تربیت، نصیحت و فہمائش اور تبلیغ و تلقین ہونا چاہیے اور ہمیں لوگوں کے افکار و مزاج اور ان کے عادات و طبیعت کی اصلاح و تربیت کرکے ہی انہیں اسلام کے ماتحت لانے اور سوسائٹی میں اسلام کو ایک زندہ عملی حقیقت اور جاری و ساری واقعہ بنانے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ باقی کسی صوفی یا شیعہ مسلمان سے اس کا مسلک تبدیل کراکے اسے اپنی پسند و چاہت کے کسی مسلک سے پیوستہ کرنے سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور ان کے اختلافات کو اگر وہ حدود و آداب آشنا ہوسکیں تو میں کوئی بہت زیادہ ضرر رساں اور خطرناک بھی نہیں سمجھتا۔ نقطۂ نظر کے اختلافات حوصلہ مند اور دوسروں کی رائے کا معقول احترام کرنے والے اور دلائل و شواہد کو شخصی و مسلکی تعصبات پر فوقیت دینے والے لوگوں ہی کو زیب دیتے اور انہی کے ہاں پیدا ہوکر ترقی اور نئی علمی و فکری جہتوں کی دریافت کا باعث بنتے ہیں۔ چھوٹے ظرف کے لوگوں اور پچھلوں کی لکیریں پیٹنے والوں اور اختلاف کو نفرت و دشمنی کی علامت گرداننے والوں کے اختلافات کو مٹانا یا مٹانے کی کوشش کرنا پتھر سے سر ٹکرانے اور تپتے صحرا سے میٹھے پانی کی آس لگانے کے مترادف ہے۔ میں کم از کم ان حماقتوں کے لیے اپنے اندر کوئی رغبت و میلان نہیں پاتا۔ امید ہے کہ بات کچھ مزید واضح ہوئی ہوگی اور میری گزارش ہے کہ اگر ناقدین میرے انقلابی ماڈل کو موجودہ حالات میں بہت ہی زیادہ وقت طلب یا قریب قریب ناممکن العمل سمجھتے ہیں تو براہِ مہربانی خالی اس طرح کے تبصرے رقم فرمانے اور میرے آئڈیلسٹ ہونے کے فیصلے سنانے کے بجائے اپنی فکری و قلمی صلاحیتوں اور قیمتی فرصتوں کو اپنے فہم و فراست کے مطابق قابلِ عمل انقلابی پروگرام کی شرح و وضاحت فرمانے میں صرف فرمائیں، ان کی یہ عنایت یقیناً ہم حقیر و خطاکر طالبعلموں کے لیے بڑی رہنمائی اور درست راستے تک رسائی کا باعث ہوگی۔ [/red][/right][/size=4][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top