Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Purpose of Life and Religion
Post Reply
Username
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][b][size=4][red][center](In reply to the Question Posted by Safimera on - Friday, June 18, 2010 - 5:37 AM)[/center][/red][/size=4][/b] [right][blue][size=3][b]محترم برادر سیفے میرا!سب سے پہلے تو میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اتنے اچھے پوائنٹس کو سامنے لا کر ہمیں ان پر بات کرنے کا موقع عنایت کیا۔ اس کے بعد میری خواہش ہے کہ میں چونکہ ان موضوعات کو بہت ہی معتلق اور اہم اور لائقِ غور و فکر سمجھتا ہوں ، لہٰذا ان پر بہت تفصیل سے اپنی گزارشات پیش کروں ۔[/b] [/size=3][/blue][/right] [center][size=5][red]تمہیدی نکات[/red][/size=5][/center] [right][green][b]خدا نے انسانوں کو پیدائشی طور پر ہدایت کے اپنے خزانے میں سے بہت کچھ عطا کیا ہوتا ہے ۔ پھر اُس نے نبیوں اور رسولوں کا ایک پورا مبارک سلسلہ قائم فرمایا جو انسانوں تک ان کی اپنی زبان اور قابلِ فہم اسلوب و دلائل کے ساتھ خدا کا پیغام پہنچاتے ، انہیں ہدایت کا راستہ دکھاتے اور آخرت میں نجات کا ضابطہ بتاتے رہے ہیں ۔ پیغمبروں کی یہ دعوت ایک عالمی و آفاقی دعوت تھی اور اب اس کی گونج اور شہرت تمام اطراف و اکنافِ عالم اور تمام انسانی قوموں اور نسلوں میں موجود ہے ۔ انسانوں کے مختلف گروہ اور مذاہب اپنی ابتدا میں خدا کے نبیوں ہی کی ہدایت پر گامزن اور انہی کی رہبری و رہنمائی پر استوار ہوئے تھے گو آگے چل کر ان میں بہت کچھ بدعات و خرافات، کمی بیشیاں ، تحریفات و تغیرات اور باطل و غیر الہامی اجزا شامل ہوتے گئے اور وہ اپنی ابتدائی شکل و صورت سے بدل کر کچھ سے کچھ ہوتے چلے گئے ۔ اس طرح دیکھا جائے تو بہت سی ایسی اقوام اور مذہبی گروہ اس وقت دنیا میں موجود ہیں جن کے باپ دادا اور تاریخی اجداد مسلمان امت ہی کی حیثیت رکھتے تھے ۔ تاہم اب موجودہ صورت میں انہیں مسلمان قرار دینا اور مسلم ملت کا حصہ باور کرنا نہ ہی درست ہو گا اور نہ ہی ممکن ہے ۔ پیغمبر خدا کے براہِ راست نمائندہ ہوتے تھے ۔ وہ خدا کی براہِ راست رہنمائی اور نگرانی میں ہوتے تھے ۔ ان کے ذریعے اپنی قوم و برادری کو ملنے والی خدائی دعوت اور مذہبی پیغام جب بالکل قطعی اور آخری درجے میں ان پر واضح ہوجاتا لیکن وہ سرکشی و ڈھٹائی اور ضد و استکبار کی بنیادو پر اس کا انکار کرتے رہتے اور پیغمبر اور اس کے ماننے والے کو نقصان و اذیت پہنچانے کے درپے رہتے تب خدا کی طرف سے براہِ راست اور اس کی واضح ہدایت ہی کے تحت خدا کے فرستادے اپنی قوم سے براء ت کا اعلان کرتے اور اُس کے علاقے سے ہجرت کرجاتے تھے ۔ یہ معاملہ ان کی اپنی صوابدید پر نہیں چھوڑ ا جاتا تھا بلکہ خدا ہی اس کا فیصلہ کرتا تھا کہ کب کسی قوم اور کسی انسانی گروہ پر اتمامِ حجت ہو گیا ہے اور اب اس کا انکار و مخالفت کسی غلط فہمی، لاعلمی اور اشکال و الجھن کی وجہ سے نہیں بلکہ محض ضد و عناد اور باپ دادا کی اندھی بہری تقلید و پیروی کے غلو کی وجہ سے ہے ۔ لہٰذا اسی کی ہدایت کے مطابق خدا کے پیغمبر اس قوم سے اپنی بیزاری و لاتعلقی اور براء ت و علیحدگی کا اعلان کرتے اور اس کے علاقے کو چھوڑ کو خدا ہی کی رہنمائی میں کسی دوسرے علاقے کی طرف چلے جاتے ۔ اس کے بعد خدا کے فیصلے کے مطابق اسی کے حکم سے اُس قوم پر خدا کا عذاب مختلف شکلوں میں نازل ہوجاتا۔[/b][/green][/right] [center][size=5][red]تفصیلی ہدایات[/red][/size=5][/center] [blue][right][b]اوپر کی تفصیلات اشارۃً اس لیے پیش کی گئی ہیں تاکہ ان کی روشنی میں مسلمانوں کو اپنی قوم و برادری میں ’چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم یا پھر مختلف مذاہب و تہذیب کی حامل و حلقہ بگوش ہو‘، کس طرح رہنا چاہیے ، مختلف خیال و عمل کے ساتھیوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے اور کس حد اور انتہا پر جا کر ان سے قطع تعلق، براء ت اور دوری کے بارے میں سوچنا چاہیے جیسے پہلوؤں پر اظہارِ خیال کرنا آسان رہے اور پیغمبروں کی تاریخ اور اسوے کی روشنی میں ہم ان حوالوں سے زیادہ بہتر راے اور رویے کو اخذ و نشان زد کرنے میں کامیاب رہیں ۔[/b][/right][/blue] [right][green][b]سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کبھی کسی پیغمبر نے اپنی قوم اور مخاطبین کو دعوت و نصیحت کرنا اُس وقت تک بند نہیں کی اور نہ ہی اس کے ساتھ قطعِ تعلق اختیار کیا اور نہ بیزاری و براء ت کا اعلان کیا جب تک کہ خدا نے براہِ راست اسے ان باتوں کا حکم اور اجازت نہیں دی۔ اس سے پہلے ان کے لیے حکم یہی تھا کہ انہیں خدا کا پیغام سناتے اور پہنچاتے رہو۔ انہیں نصیحت و تلقین کرتے رہو۔ انہیں ہدایت کے راستے کی طرف بلاتے رہو۔ ان کے ساتھ امانت و خیرخواہی کا رویہ اختیار کیے رہو۔ انہیں آخرت کی فلاح، جنت کی خوش قسمتی اور جہنم کی تباہی سے بچاؤ کے لیے بیدار کرتے اور پکارتے رہو۔ان کی ایذاؤں ، مخالفتوں ، اعتراضات اور بدسلوکیوں کو برداشت کرو، ان پر صبر کرو اور ہر حال میں انہیں حق اور سچائی اور فلاح کا پیغام دیتے رہو۔ خدا کے پیغمبر یہ کام اُس وقت بند کرتے تھے جب انہیں براہِ راست خدا کا حکم مل جاتا تھا۔ آج کون ہے جس کا خدا سے براہِ راست تعلق قائم ہو اور اسے وہاں سے ڈائریکٹ رہنمائی اور مشورے اور حکم و اجازت ملنے کا امکان ہو۔ کوئی بھی نہیں ۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ چاہے معاملہ غیر مسلم بھائیوں کا ہو یا ہمارے علم و فہم کے مطابق ہمارے اپنے گمراہ یا غلط فکری و غلط کاری کا شکار مسلمان بھائیوں کا، ہمارا کام ہے کہ ہم حق اور سچ کو ان کے روبرو پیش کرتے رہیں ، ہر پہلو اور زاویے سے اسے واضح اور صاف کرنے کی کوشش کریں ، ان کے اشکالات، اعتراضات اور سوالات کا سامنا کریں اور ان کی تسلی و تشفی کا سامان کرنے کی جستجو کریں ، بحث کا موقع ہو تو خدا کی ہدایت کے مطابق اچھے اسلوب اور اعلیٰ درجے کی علمی و فکری اور عقلی و فطری دلائل کے ہتھیار کے ساتھ بحث کریں ۔ ایسی صورتحال میں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہم بھی انسان ہی ہیں اور وحی و الہام کے شرف سے سرفراز کوئی اعلیٰ و برتر اور محفوظ و معصوم ہستی نہیں ہے ۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ غلطی و نادرستی ہمارے ہی فکر و عمل میں ہو، لہٰذا ہمیں دوسرے کی بات اور دلائل بھی پورے غور و ہمدردی کے ساتھ سننے چاہیے ۔ تاکہ اگر ہم ہی کسی راے یا اقدام کی غلطی میں مبتلا ہو تو اپنی اصلاح کرسکیں ۔ ہمیں ہمیشہ اسی ذہن و برتاؤ کے ساتھ غیرمسلموں اور اپنے ہم مذہب بھائیوں کے ساتھ معاملہ کرنا چاہیے لیکن کسی حال میں ان سے نا امید و مایوس ہوجانا اور ان کے ہدایت یاب ہونے کے حوالے سے اپنی آس کھودینا ہمارے لیے جائز نہیں ہے ۔ ہم کسی حال میں ان سے قطع تعلقی اختیار نہیں کرسکتے ، رشتہ نہیں توڑ سکتے ، بول چال اور میل ملاقات ختم نہیں کرسکتے اور نہ ہی کسی مرحلے پر ان سے براء ت و بیزاری کا اعلان کرسکتے ہیں ۔ [/b][/green][/right] [blue][right][b]اس باب میں ایک معقول بات یہ ہو سکتی ہے کہ اگر کوئی زیادہ علم نہیں رکھتا اور اس کا واسطہ ایسے غیرمسلم حضرات کے ساتھ پڑ جاتا ہے جو بہت زیادہ معلومات رکھتے اور اتنے ذہین و باصلاحیت ہیں کہ ان کے ساتھ میل جول برقرار رکھنے اور اسلام یا قرآن وغیرہ پر بظاہر ان کے ایسے مضبوط و ناقابلِ رد فلسفیانہ و تاریخی وغیرہ اعتراضات بار بار سننے سے جن کا جواب اس کے پاس نہیں ہے یہ خطرہ ہے کہ وہ خود کسی شک و تردد میں مبتلا ہوجائے ، تو ایسی صورت میں احتیاطی طور پر ان سے کترانے یا تعلق میں کمی کر لینے یا میل جول ختم کر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ یا ایسے مسلمانوں سے میل ملاپ میں کمی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ جو بدعات اور شرکیہ اوہام و رسومات میں بالکل ہی غرق ہوں اور ہزار دلائل اور تفہیم کے باوجود اپنی ڈگر سے ٹس سے مس ہونے کے لیے تیار نہ ہوں اور ان کی صحبت اور معیت میں اپنے کسی لغزش و گندگی میں لتھڑ نے اور مبتلا ہونے کا خدشہ پیدا ہوجائے ۔تاہم معاملہ مسلمان کا ہو یا غیر مسلم کا نفرت و عداوت اور بغض و مایوسی کا کوئی سوال نہیں ۔ آپ کسی معقول بنیاد یا ضروت کے تحت احتیاطی نقطۂ نظر سے ضرور ان سے دور ہوجائیے یا ملنا جلنا کم کر دیجیے یا بات چیت اور بحث سے گریز کیجیے لیکن ان کے حق میں اپنے دلی جذبات کو خیرخواہی اور ہمدردی ہی کے حدود میں رکھیے ، عناد و نفرت اور بغض و بدخواہی میں ہرگز ہرگز نہ ڈھلنے دیجیے ۔[/b][/right][/blue] [green][right][b]ہم اس بات کی معقولیت کو اپنی عام زندگی کے معمولات کی روشنی میں بھی سمجھ سکتے ہیں ۔ ایک بیٹا اگر ماں باپ کا نافرمان اور باغی ہوجائے ۔ انہیں تنگ اور پریشان کرے ۔ ان کی ایک نہ مان کر دے ۔ ہر وقت ان کا دل جلانے اور کلیجہ دکھانے والی حرکتیں کرتا پھرے ۔ محلہ بھر کے لوگوں کی ناک میں دم کرڈالے ۔ لوگ اس کی شکایت لے لے کر اس کے والدین کے پاس آتے اور انہیں مزید پریشان و بے چین کرتے ہوں وغیرہ۔ تو آپ کا کیا خیال ہے کہ ایسے بیٹے کو سمجھانا اور سدھارنے کی کوشش کرنا معقول، درست اور بہتر ہو گا یا فَٹ سے اسے گھر اور جائداد سے عاق کرینا، اس کے ساتھ رشتہ ناطہ ختم کر دینا، اسے گھر سے دھکے دے کر نکال باہر پھینکنا اور بہن بھائیوں کا اس کے ساتھ بغض و نفرت میں مبتلا ہوجانا اور اس کا ہر طرح سے بائیکاٹ کر دینا۔ یقینا ایسا ہو سکتا ہے کہ والدین اس کی اصلاح و سدھار کے سارے جتن کرڈالنے کے بعد بالآخر اس کی اصلاح کی امید سے مایوس ہوجائیں اور بامر مجبوری اسے گھر سے نکال دیں اور اپنی زندگی سے خارج کریں ۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ ایسا اُسی انتہائی صورت میں ہو گا جب کہ ایسا بیٹا بالکل ہی بگڑ چکا اور نرا شیطان بن چکا ہو اور اس کی ہر بات اور ادا سے اس بات کا اظہار و اعلان ہورہا ہو کہ یہ سدھرنے اور بدلنے والا نہیں ہے ۔ ورنہ عام طور پر یہی ہوتا اور اسی بات کو معقول و درست سمجھا جاتا ہے کہ ماں باپ، بھائی بہن، دوست رشتہ دار اور پڑ وسی و محلے دار سب اسے سمجھانے اور راہِ راست پر لانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے ہر طرح پیار سے ، ڈانٹ ڈپٹ سے ، نصیحت و تلقین سے ، تنبیہہ و تذکیر سے ، مار پیٹ سے ، سزا اور سختی سے وغیرہ وغیرہ درست کرنے اور اپنی غلطیوں سے باز آجانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ اور یہ کوششیں لمبا عرصہ چلتی رہتی ہیں ۔ ایسے ہی ایک دو لمحات یا دو چار دنوں کے بعد یا اکا دکا واقعات کے نتیجے میں اسے ناقابلِ تبدیلی قرار دے کر اس سے منہ نہیں موڑ لیا اور رشتہ نہیں ختم لرکیا جاتا۔ یہ کوششیں اور افہام و تفہیم کی کاوشیں اکثر و بیش تر کامیاب ہوتیں اور مفیدِ مطلب نتائج رونما کرنے کا باعث بنتی ہیں اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ساری جدوجہد بے سود و بے کار جاتی اور بالآخر بیٹے کو زندگی اور جائداد وغیرہ سے بے دخل کر دینے کے علاوہ کوئی چارہ اور حل باقی نہیں بچتا۔ بیٹے کے معاملے میں والدین اور عزیز و احباب اس پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ ایک انتہا اور حد پر جا کر وہ اس بات کو جان اور سمجھ لیں کہ اب بس یہ ٹھیک ہونے والا نہیں ہے مگر کسی کے ہدایت اور حق و سچائی کی دعوت کے باب میں آخری درجے میں ناقابلِ توقع اور نالائقِ امید ہوجانے کو جان لینا اکثر و بیش تر کسی انسان کے بس میں نہیں ہوتا۔ دلوں کا حال اور مستقبل کا علم خدا ہی کے پاس ہے لہٰذا اس باب میں کسی کو یہ حق و اختیار نہیں دیا گیا یہاں تک کہ خدا کے پیغمبروں کو بھی کہ وہ اپنی شخصی و ذاتی صوابدید اور اپنے ذاتی عقل و فہم و تجربہ کی بنیاد پر کسی کے بارے میں اس حوالے سے فیصلہ کر لیں ۔ نہیں بلکہ اس کے لیے خدا کے پیغمبر خدا ہی کی رہنمائی اور فیصلے اور اجازت کا انتظار کرتے تھے ۔ اب جبکہ نبوت و رسالت ختم ہو چکی اور پیغمبروں کی آمد کا سلسلہ موقوف ہو چکا ہے کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی شخص یا گروہ کے بارے میں اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرے ۔ اب ہر ایک کے لیے بس یہی راستہ ٹھیک ہے کہ وہ حق و سچائی کا پیغام عام کرتا رہے ۔ اور لوگوں کو ہدایت کے راستے کی طرف پکارتا رہے ۔ اور یہ کام اور سلسلہ کبھی بند نہ کرے ۔ لوگوں کی طرف سے کیا جواب ملتا اور رد عمل سامنے آتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑ تا۔ اچھا جواب اور مثبت رد عمل سامنے آئے تو خدا کا شکر بجالایا جائے ورنہ صبر و تحمل اور ثابت قدمی و حوصلہ مندی سے کام لیا جائے ۔ خدا کے پیغمبر بھی خدا کے راستے اور دین کی دعوت کے سلسلے میں بے شمار اذیتوں کو سہتے اور مشکلات و تکالیف کو برداشت کرتے رہے ہیں لیکن جب تک خدا کا حکم نہیں آیا انہوں نے اپنے مخاطبین اور اقوام سے بیزاری و قطع تعلقی اختیار نہیں کی۔ ہم لوگوں کو چونکہ خدا کی طرف سے کسی اطلاع نے نہیں آنا اور نہ کسی الہام نے نازل ہونا ہے لہٰذا ہمارا کام تو بس پیغام پہنچاتے اور دعوت و ہدایت کی صدا لگاتے رہنا ہے ۔ اس پر لوگ کیا روش اپناتے اور کیا رد عمل فرماتے ہیں اس کی ذمہ داری اُن پر عائد ہوتی ہے ۔ ہمیں بہرحال اس راستے کو نہیں چھوڑ نا ہے چاہے اس کے نتیجے میں اعزاز و ا کرام سے سابقہ پیش آئے اور بظاہر کامیابیاں اور فتوحات نصیب ہوں یا اذیتوں اور مشکلات سے سابقہ ہو اور بظاہر ناکامیاں اور شکستیں مقدر بنیں ۔ اصلاح و دعوت اور حق و سچائی کی پیغام رسانی کا یہ کام ہمیں لگاتار کرتے رہنا ہے ، معاملہ چاہے غیر مسلموں کا ہو یا اپنے فکری و عملی خرابیوں اور گمراہیوں میں مبتلا مسلمان بھائیوں کا۔ ہم اگر کسی چیز کو غلط یا بدعت یا مشرکانہ سمجھتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اس کا ارتکاب کرنے والے اپنے مسلمان بھائی اور غیرمسلم ساتھی سے ہمدردی کریں ، اسے اس کی خرابی و شناعت سے واقف کرائیں اور اسے اس دلدل اور کیچڑ سے نکالنے کی جستجو کریں نہ یہ کہ اس سے منہ موڑ لیں اور پیٹھ پھیر لیں ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ شاندار و اثر آفرین الفاظ ہمیں یاد رکھنے چاہیے ، جو آپ نے اُس موقع پر ارشاد فرمائے جب آپ کے پاس خدا کا فرشتہ یہ پوچھنے آیا تھا کہ آپ کے ساتھ بدسلوکی اور سنگدلی کا انتہائی گھناؤنا مظاہرہ کرنے کے جرم میں فلاں بستی اور اس میں رہنے والوں کو دو پہاڑ وں کے درمیان کچل اور مسل کر رکھ دوں ۔ آپ نے فرمایا: نہیں میں یہ امید رکھتا ہوں کہ شاید ان کی نسلوں میں آنے والے لوگ مسلمان اٹھیں اور میری پیروی اختیار کریں ، یہ ہمارے لیے اس باب میں آخری نمونہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ہمیں بھی آپ کے سچے امتی اور حقیقی پیرو ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے حق و ہدایت کے راستے پر ثابت قدمی اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ حق کی دعوت اور سچائی کے فروغ کی راہ میں دل و جان سے لگے رہنا چاہیے ۔ کسی کی غلطیوں ، شرک و کفر اور فکری و عملی بے راہ رویوں کو دیکھ کر ہمیں دل شکستگی و مایوسی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیشہ امید کے ساتھ جینا، لوگوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے کوششیں کرتے رہنا اور اپنے خدا سے اپنے بھائیوں کی ہدایت یابی اور فلاح و کامیابی کی دعا کرتے رہنا چاہیے ۔ [/b][/right][/green] [right][blue][b]اسی باب میں یہ پہلو بھی پیشِ نظر رکھنے کا ہے کہ خدا کے پیغمبر مثلاً نوح علیہ السلام ساڑ ھے نو سو سال تک اپنی قوم کو جھنجوڑ تے اور بیدار کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ ان کی تمام ایذاؤں اور مخالفتوں کے علی الرغم آپ انہیں توحید اور خدا کی بندگی کی دعوت دیتے رہے ۔ بتوں اور جھوٹے معبودوں کی بندگی کو ترک کرنے کی ترغیب دیتے رہے ۔ اسی طرح دوسرے پیغمبروں نے بھی لمبے لمبے عرصے تک اپنی قوم کے لوگوں کو سمجھایا، نصیحت کی، ان کے سوالات کے جواب دیے ، ان کے اشکالات دور کیے ، ان کے اعتراضات کا سامنا کیا، ہر طرح سے ان کی ذہنی و فکری الجھنوں کو ختم اور دور کرنے کی کوشش کی، ان کی ایذاؤں ، تکلیفوں اور مخالفتوں کا ثابت قدمی اور حوصلہ مندی سے سامنا کیا۔ اور انہوں نے یہ سارے کام سراسر خیرخواہی، انسانی ہمدردی اور پوری دردمندی سے کیے ۔ لہٰذا ان کے ماننے والوں اور ان کی پیروی کا دم بھرنے والوں کو بھی لوگوں کو پیٹھ دکھانے کا سوچنے اور ان سے بیزاری و براء ت کا اعلان کرنے کے بجائے ان سے ہمدردی و خیرخواہی رکھنی چاہیے ، ان کی ہدایت و نجات کے لیے تڑ پنا اور رونا چاہیے اور ہر طرح سے انہیں سمجھانے ، پگھلانے ، راہِ ہدایت کی طرف لانے اور نجات و فلاحِ آخرت کے سچے راستے پر چلانے کی مخلصانہ و سرفروشانہ کوشش کرنی چاہیے ۔لوگ آخر ان باتوں کو کیوں نہیں دیکھتے کہ خدا ہی نے اپنے بندوں کو فکر و عمل کی آزادی دی ہے اور وہ ان کی تمام ناشکریوں ، سرکشیوں اور بغاوتوں کے باوجود ان سے نرمی ہی کی معاملہ کرتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے ہدایت حاصل کریں ۔ اسی لیے اس نے پہلے پیغمبروں کا سلسلہ قائم فرمایا۔ پھر اس کے بعد ان کی امتوں کی یہ ذمہ داری لگائی کہ وہ اقوامِ عالم تک خدا کا پیغام پہنچائیں اور انہیں ہدایت کے راستے کی طرف بلائیں ۔ ختمِ نبوت کے بعد اب یہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر مسلم اقوام تک قیامت تک خدا کے دین اور حق و سچائی کا پیغام پہنچاتے رہیں ۔ یہ کام انہیں مسلسل کرنا ہے ۔ اور ہر حال و صورت میں کرنا ہے ۔ جب غیر مسلموں کے حوالے سے ان کی ذمہ داری کا یہ عالم ہے تو پھر اپنے غلط فکری و عملی میں مبتلا بھائیوں کے حوالے سے ان کے لیے یہ رویہ اور برتاؤ کیسے روا اور مناسب ہو سکتا ہے کہ وہ انہیں گمراہی اور ضلالت کی وادیوں میں بھٹکتا چھوڑ دیں اور ان کی فکری و عملی لغزشوں کو ان پر کھولنے اور انہیں اس دلدل سے نکالنے کے بجائے انہیں جواز بنا کر ان سے قطع تعلق کر لیں اور دوری و بیزار میں مبتلا ہوجائیں ۔ یقینا یہ روش بالکل بھی مناسب اور صحیح نہیں ہے ۔ ہمارے بھائیوں کا ہم پر یہ حق بنتا ہے کہ ہم ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں کے باوجود اور ان کی بدعتوں اور شرکیہ اوہام و رسومات کے باوصف ان سے ملتے جلتے رہیں ۔ ان کی علمی و عملی خطاؤں کو ان پر واضح کرنے کی سنجیدہ، مدلل اور خیرخوانہ کوششیں کرتے رہیں ۔ وہ مانیں یا نہ مانیں ، سنیں یا نہ سنیں ، ہم سے اچھا برتاؤ کریں یا بدسلوکی سے پیش آئیں ، ہمیں یہ کام کرنا چاہیے اور ان کی خیرخواہی و ہمدردی کا حق ادا کرتے رہنا چاہیے ۔ خدا اور دین نے کہیں ہمیں یہ تلقین نہیں کی فلاں حد پر جا کر یا فلاں تعداد پوری کر کے تم یہ کام بند کر دینا اور اگر فلاں اور فلاں اتنی اتنی بار بتانے سمجھانے کے بعد بھی باز نہ آئیں اور اپنی روش و ڈگر تبدیل نہ کریں تو تم ان سے منہ پھیر لینا اور تعلقات و روابط ختم کرڈالنا۔[/b][/blue][/right] [right][red][b]ہمیں یاد رکھنا اور ہمیشہ اس بات کو مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ مسلمانوں میں اس وقت جو شرکیہ عقائد و رسومات اور بدعتیں بہت بڑ ے پیمانے پر رواج پا گئیں ہیں وہ انہیں خلافِ اسلام جان اور سمجھ کر نہیں اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ انہیں ان کے باب میں علم و فہم اور تاویل کی غلطی لگی ہے ۔ وہ جن مشرکانہ عقائد و تصورات کو مانتے ہیں ، آپ اُن سے بحث کر کے دیکھ لیجیے کہ وہ کبھی انہیں مشرکانہ اور خلافِ اسلام تسلیم نہیں کرتے ۔ آپ جن چیزوں کو بدعت اور جن رسموں کو غیر دینی بتاتے ہیں وہ انھیں عین مطابقِ اسلام اور موافقِ قرآن و سنت گردانتے ہیں ۔ انہیں اصل میں یہی مسئلہ درپیش ہے کہ وہ اپنے ان خیالات و رسومات اور بدعات کی غلطی و خامی کو سمجھ نہیں پا رہے اور دھوکے اور غلط فہمی سے انہیں اسلامی چیزیں سمجھ کر دل و جان سے اپنائے ہوئے ہیں ۔ ایسی صورت میں ہمارا کام ان پر شرک و کفر اور گمراہی کا فتویٰ جڑ کر ان سے دور ہوجانا نہیں ہے بلکہ نہایت ہمدردی و دلسوزی اور نرمی و شفقت کے ساتھ ان پر ان باتوں کی غلطی و خامی کو واضح کرنے کی کوشش کرنا ہے ۔ یہ ساری صورتحال اس وجہ سے ہے کہ لوگ براہِ راست قرآن و سنت کی تعلیمات سے واقفیت و آگاہی نہیں حاصل کرتے ۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ان سے بیزار و متنفر ہونے کے بجائے قرآن و سنت کی اصل تعلیمات ان تک پہنچانے کی کوشش کریں ۔ انھیں توحید کی حقیقت اور اس کے تقاضوں سے روشناس کرائیں اور اسلام کی پاکیزہ و روشن تعلیمات سے آشنا بنائیں ، تاکہ ان پر خود ہی ان خیالات و رسومات کی حقیقت و شناعت واضح ہوجائے اور وہ خود اپنی سمجھ اور فیصلے سے ان کی غلطی کو محسوس کر کے ان سے رجوع کر لیں ۔ اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ بہت سے معاملات ایسے ہیں جن میں راے اور نقطۂ نظر کے اختلافات کو ختم کرنا ممکن ہی نہیں ہے ۔ ایسے معاملات میں صحیح رویہ یہ ہے کہ اختلافات کو گوارا کیا جائے ، ہر ایک کی آزادی راے کا احترام کیا جائے اور اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد و محبت اور عزت و احترام کے ساتھ رہنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے ۔[/b][/red][/right][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top