Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Purpose of Life and Religion
Post Reply
Username
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][center][b][size=5]مذہبی اختلافات کے باوجود ہم آہنگی کیسے قائم کی جائے اور برقرار رکھی جائے[/size=5][/b][/center] [right][b][size=4]میں اس باب میں جیسا کہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں ، اس بات پر اصرار کروں گا کہ مسلمانوں کے مختلف ا سکالرز، ا سکولز آف تھاٹز اور ان کی مختلف جماعتوں اور فرقوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات چونکہ دین کی اساسات میں نہیں ہیں بلکہ دوسری دوسری باتوں اور تفصیلات میں ہیں ، لہٰذا انہیں مذہبی اختلافات سمجھنے اور کہنے کے بجائے علمی، فکری، نقطۂ نظر، استنباط و استدلال اور راے کے اختلافات لکھنے بولنے کی عادت اپنانی چاہیے ۔ دین کی اساسات اور بنیادوں کے حوالے سے سب ایک ہی جگہ پر کھڑ ے اور ایک ہی طرح کے نظریات اور جذبات رکھتے ہیں ۔ ہر شخص اور جماعت خدا، رسول اور آخرت پر ایمان رکھتے اور قرآن و سنت ہی کو دین کے معاملے میں اصل ا تھاڑ تی اور مرجع قرار دیتے ہیں ۔ لہٰذا باقی امور چاہے فروعی ہوں یا اصولی، ان کے اختلافات کو مذہبی اختلافات قرار دینا میرے نزدیک بنیادی طور پر غلط ہے اور اس طرح کی اصطلاحات و جذبات ہی نے ہمیں باہمی دوری و جماعتی تعصبات میں زیادہ شدت سے مبتلا کیا اور الجھایا ہے ۔شیعہ برادری کے امامت اور قرآن میں تحریف اور کمی بیشی اور صحابہ کرام کے بارے میں تخفیف و تحقیر کے نظریات اور قادیانی برادری کا ختمِ نبوت کے انکار کے ہم معنیٰ مرزا قادیانی کی نبوت کا اعتقاد وغیرہ ایسے خیالات و نظریات ہیں جن کے باب میں رواداری و ہم آہنگی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا اور یہ بنیادی اور اساسی امور میں اختلافات کی قسم سے ہیں ۔ اگر چہ اس کے باوجود ان سے لڑ نا اور انہیں جان و مال کا نقصان پہنچانا جائز نہیں ہو جائے گا۔ تاہم اس طرح کی مثالوں میں شدت اور کسی ایک ہی نقطۂ نظر پر اصرار کی بات تو سمجھ آتی، پلے پڑ تی اور معقول و مناسب محسوس ہوتی ہے لیکن احادیث کے دین میں مقام و حیثیت کے باب میں مختلف راے رکھنے ، فقہ کے مختلف ابواب و مسائل میں فتویٰ و رجحان کے فرق اور جدید دور میں دین کی دعوت اور فروغ کے کام کے لائحۂ عمل کے بارے میں مختلف نقطۂ نظر و طرزِ عمل کو بنیاد بنا کر دو مسلم نمائندوں یا جماعتوں یا ا سکول آف تھاٹز کو مذہبی اختلافات کا شکار بتانا اور پھر انہیں باہمی طور پر مذہبی ہم آہنگی کی تلقین کرنا بہت تعجب انگیز امر اور حیران کن معاملہ ہے ۔ لہٰذا میرا یقین اور گزارش ہے کہ اس طرح کے اختلافات کو علمی و فکری اور سنجیدہ بحث مباحثے کے دائرے تک محدود رکھا جائے اور ان کی بنیاد پر کسی کو مطعون کرنے ، فتویٰ بازی کا نشانہ بنانے اور گمراہ، بے دین اور فتنہ پرور قرار دینے اور خود ان اختلافات کو مذہبی و دینی اختلافات قرار دینے سے آخری احتیاطی حد تک پرہیز و گریز کیا جائے ۔[/size=4][/b][/right] [right][size=4][b]خدا نے قرآن کو قیامت تک کے لیے محفوظ کر دیا ہے ۔ دینِ اسلام اس کے نزدیک واحد پسندیدہ دین ہے ۔ اور قرآن و سنت جو اس دین کے ترجمان و منبع ہیں وہ بھی اب قیامت تک محفوظ ہیں ۔ اس حفاظت اور قیامت تک موجودگی کی یقینی صورت اس کے علاوہ اور کچھ ہو نہیں سکتی تھی اور نہ اختیار کی گئی کہ اس مسلم امت کو تا قیامت باقی رکھا جائے اور اس کے درمیان ایسے لوگ اور دین کے علم و فہم کے وارث پیدا ہوتے رہیں جو اس دین کو باطل کی در اندازی، تحریف و ترمیم کی ترکتازی اور مفسدین و اشرار کے فساد و بگاڑ سے الگ کر کے خالص و بے آمیز انداز و شکل میں خدا کے بندوں اور دنیا کی قوموں کے سامنے لاتے اور پیش کرتے رہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ باطل اس پر حملہ آور ہو گا، تحریف و ترمیم کی کوششیں اس پر یلغار کریں گی اور اشرار و مفسدین اس میں بگاڑ و فساد برپا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے ، لیکن خدا کے دین کے مخلص و جاں سپار بندے ان کی ایسی تمام کوششوں کا مقابلہ کر کے انہیں پسپا کرتے رہیں گے اور ہر طرح کے گرد و غبار، کمی بیشی اور تحریف و تاویل سے اس دین کو الگ اور پاک صاف کر کے لوگوں کے لیے بیان و نمایاں کرتے رہیں گے ۔ اب ذرا اس پہلو پر نظر کیجیے کہ یہ امت کیا دو چار لوگوں یا دو چار قوموں کا نام ہے ۔ آپ اتفاق کریں گے کہ نہیں بلکہ یہ تو بے شمار افراد و اقوام پر مشتمل اور دنیا کے تمام اطراف و اکناف میں پھیلی ہوئی مسلمانوں کی بے شمار تعداد کا نام ہے ۔ تو آپ کا کیا خیال ہے کہ کیا یہ ممکن ہے اور کسی بھی پہلو اور پیمانے سے معقول ہو گا کہ اس امت کی کسی ایک ہی شاخ یا چند مخصوص جماعتوں ہی میں دین کے ایسے خادمین و حامیین اور ترجمان و مفسرین ظاہر ہوں ۔ باقی شاخیں اور جماعتیں گمراہیوں اور ضلالتوں کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتی شیطان کا چارہ بنی رہیں ۔ یقینا نہیں تو جب امکان اور عقل دونوں اسی بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ایسے قابلِ قدر خادمینِ دین و رہبرانِ امت ہر دور، ہر خطے ، ہر علاقے اور ہر جماعت و تحریک میں ظاہر ہو سکتے ہیں تو پھر کسی ایک ہی تحریک و تنظیم کے خول میں بند ہوکر رہ جانا اور اسی حلقے کے اہل علم و قلم کی باتوں کو خالص حق اور کھری سچائی گمان کرنا اور دوسرے مسلم اہلِ علم اور حلقوں سے کنارہ کشی برتنا وغیرہ جیسے رویے کیسے معقول قرار دیے جا سکتے ہیں ۔ پھر بات یہ ہے کہ انسان کتنا ہی عالم و فاضل کیوں نہ ہو اور اس کی علمی و فکری جلالت کتنی ہی بلند و درخشاں کیوں نہ ہو، رہتا انسان ہی ہے اور یہ امکان ہر وقت موجود رہتا ہے کہ کسی معاملے میں اس سے خطا ہوجائے اور کسی مسئلے میں اس کا رجحان اور راے کسی غلطی سے دوچار ہوجائیں ، لہٰذا ضروری ہے کہ اہلِ علم و قلم اور مذہبی نمائندوں اور ترجمانوں کی باتوں کو بھی تحقیق و تنقید اور تجزیہ و تنقیح کر کے ہی قبول یا رد کیا جائے ۔ ان پر اندھادھند اعتماد کر لینا اور ان کی ہر بات پر آمنّا و صدّقنا کہہ دینا ہرگز کوئی معقول و محمود رویہ نہیں ہے ۔اور اسی لیے یہ بھی لازمی ہے کہ کسی معاملے اور مسئلے میں تمام اہلِ علم کے نقطۂ نظر کو کم از کم سننے اور زیرِ غور لانا کا ذہن بنایا جائے ۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر عام آدمی بھی یہ سارا جتن کرنے نکل کھڑ ا ہو کہ کسی مختلف فیہ امر میں مختلف اہل علم و فہم کیا فرماتے ہیں لیکن اسے بہرحال اس کے لیے تو ضرور ہی تیار رہنا چاہیے کہ اگر اس کے سامنے اس کے اختیار کردہ طرزِ عمل پر کوئی تنقید یا کسی معاملے میں کسی دوسرے اہلِ علم کا نقطۂ نظر آئے تو وہ اسے ہمدردی کے ساتھ سننے اور سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور و فکر کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہے ۔[/b][/size=4][/right] [right][size=4][b]دنیا کے بے شمار خطوں میں کتنے ہی مسلمان افراد اور حلقے ہیں جو نہایت اخلاص اور دینی حمیت و وابستگی کے باعث دین کو پھیلانے اور اس کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں ۔ کیا یہ کوئی مناسب بات ہو گی کہ کوئی مسلمان اپنے حلقے کے علاوہ ہر مسلم حلقے اور تحریک کو بے کار اور غیر مخلص و گمراہ سمجھ لے اور ان کی تمام کارگزاریوں پر اپنے جذبات میں پانی پھیر دے اور کسی دوسرے حلقے اور تنظیم کی خدمات اور جانفشانیوں کو کریڈٹ اور پذیرائی دینے کے لیے تیار نہ ہو۔ میں تو کم از کم اس طرح کی سوچ اور رویے کو شدید طور پر اعتدال و میانہ روی اور عقل و فطرت سے ہٹا ہوا اور نہایت قابلِ تنقید و مذمت محسوس کرتا ہوں ۔گو یہ مانا جانا جا سکتا ہے اور ایک حقیقت ہے کہ سارے ہی مسلم حلقے راہِ راست اور معیاری ڈگر پر استوار نہیں ہیں اور نہ ان کے آپسی اختلافات کی نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا یقین کرنا ممکن ہے ۔ ان کے ہاں بہت سی فکری و عملی لغزشیں اور غلطیاں موجود ہیں لیکن ہر ایک کو غیر مخلص و بدخواہ اور اسلام کے بھیس میں اسلام دشمنوں کا ایجنٹ باور کرنا یقینا ایک نہایت ہی سنگدلانہ جسارت اور غیر متعدل جذباتیت ہے ۔[/b][/size=4][/right] [size=4][right][b]میرا احساس ہے کہ اگر مسلمانوں کے افراد اور ان کے مختلف گروہوں اور حلقوں کے درمیان یہ احساسات اور رویے فروغ دیے جا سکیں کہ ہمارے باہمی اختلافات علم و فہم اور استدلال و استنباط کے اختلافات ہیں کوئی دینی و مذہبی اختلافات نہیں ہیں اور یہ کہ حق کا معیار کوئی شخصیت یا طبقہ و فرقہ نہیں بلکہ قرآن و سنت ہیں اور یہ کہ کسی شخصیت یا حلقے کے تمام سرمایے کو سراسر حق قرار دے کر باقی تمام اہلِ علم اور مسلم جماعتوں کے سرمایے کو باطل سمجھنا کوئی معقول و منصفانہ روش نہیں ہے بلکہ ہمیں ہر راے اور مؤقف کو قرآن و سنت کی میزان اور دلائل کی کسوٹی پر پرکھ کر اور جائزہ لے کر ہی اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرنا چاہیے نہ یہ کہ ہم گروہی اور مسلکی بنیادوں پر چیزوں کو صحیح یا غلط قرار دیں اور یہ کہ اگر ہم اپنے سے مختلف راے کو بہت اعتماد و تیقن کے ساتھ غلط سمجھتے بھی ہیں تو بھی کم از کم اس امکان کو تو تسلیم کریں کہ دوسرا ہم سے اخلاص اور نیک نیتی ہی کے ساتھ اختلاف کر رہا ہو گا اور یہ کوئی لازمی نہیں ہے کہ ضرور ہی اس کی نیت میں کوئی کھوٹ اور اس کے پسِ پردہ کوئی سازش یا شیطانی مقصد کارفرما ہو، لہٰذا گرچہ ہمارا اپنی راے اور مؤقف پر اصرار کرنا ٹھیک اور درست ہے لیکن دوسرے کو بدنیت اور فتنہ جو قرار دینے سے بھی ہمیں پرہیز کرتے ہوئے اس کے حق میں دعاے خیر کرنی چاہیے وغیرہ، اگر یہ احساسات مسلمانوں کے سینوں میں پروان چڑ ھائے جا سکیں اور یہ رویے ان کے باہمی معاملات میں جاری کیے جا سکیں تو اختلافات کی خلیج کو بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے ، باہمی بغض و نفرت کے زہر کے اثرات کا بہت حد تک توڑ کیا جا سکتا اور باہمی تعصبات و مشتعل جذبات کو بہت حد تک قابو میں لایا جا سکتا ہے ۔ یہ یقینا قربانی کا میدان ہے اور اس میں ان لوگوں کو ضرور اترنا چاہیے جو ہر قیمت پر مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور ان میں باہم پیار و اتحاد لانا چاہتے ہیں ۔ مسلمانوں کے ایک دوسرے کے حوالے سے موجودہ احساسات اور رویوں کو تبدیل کیے بغیر اور اس راہ کی قربانیوں کے تپتے ہوئے صحرا کو سر کیے بغیر ہمارے یہ خواب اور تمنائیں محض خیالی تصویریں ہیں جن میں حقیقت کی دنیا میں رنگ بھرنا کسی فنکار و مصور اور کسی داعیٔ اتحاد و علبردارِ اخوت کے بس کی بات نہیں ہے ۔[/b][/right][/size=4] [size=5][center][b]’الجماعہ‘ سے مراد[/b][/center][/size=5] [size=4][right][b]الجماعہ اسلامی لٹریچر اور احادیث میں اپنے لغوی مفہوم میں بھی استعمال ہوا ہے اور ایک خاص اصطلاحی مفہوم میں بھی۔ جس حدیث میں اہلِ حق فرقے کو جماعت بتا کر اس کا وصف اتباعِ ما انا علیہ و اصحابی بتایا گیا ہے وہاں یہ اپنے لغوی مفہوم، جماعت، گروہ اور ٹولہ کے مفہوم میں ہے اور جن احادیث میں مسلمانوں کو ’الجماعہ‘ سے وابستہ رہنے کی تاکید و تلقین کی گئی اور اس سے علیحدگی اور بغاوت کو جرم اور گمراہی بتایا گیا وہاں یہ اپنے خاص اصلطلاحی مفہوم ’(مسلمانوں کے ) سیاسی اقتدار‘ کے معنیٰ میں ہے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس باب کی دوسری روایات میں الجماعہ کی جگہ السلطان کا لفظ موجود ہے جو صراحتاً نظمِ اقتدار کی طاقت اور سیاسی قوت کے مفہوم میں ہے اور واضح ثبوت ہے کہ الجماعہ سے مراد بھی کسی اسلامی معاشرے میں برسرِ اقتدار گروہ اور نظمِ حکومت کے سربراہ کار ہیں ۔ مسلمانوں کو انارکی، طوائف الملوکی اور سیاسی و اجتماعی خلفشار سے بچانے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد کے زمانے میں فتنوں کے سر اٹھانے ، اسلامی نظمِ اقتدار کے معیاری حالت میں برقرار نہ رہنے اور اس میں خرابیوں اور خامیوں اور حکمرانوں کے اخلاق و کردار میں گراوٹوں کے در آنے کے باوجود انہیں باہم متحد رہنے اور انتشار و خلفشار سے محفوظ رہنے کے لیے یہ تلقین و نصیحت فرمائی ہے کہ وہ ہر حال میں مسلمانوں کی اجتماعی مرضی سے وجود میں آنے والے نظام اور اس کے امراء سے اطاعت و معاونت کا رویہ اپنائے رکھیں اور ہر گز خروج و بغاوت کا راستہ اختیار نہ کریں ۔ اس الجماعہ کا کوئی تعلق مسلمانوں کی کسی اصلاحی و انقلابی جماعت اور اس کے امیر کے ہاتھ پر بیعت اور اس کی کلی و غیر مشروط اطاعت و تقلید سے نہیں ہے ۔ بلکہ یہ سر تا سر مسلمانوں کے اجتماعی سیاسی اقتدار اور اس کے سربراہ کاروں سے متعلق ہے ۔ [/b][/right][/size=4] [size=4][right][b]باقی آج مختلف مسلمان اور ان کی مختلف جماعتیں اور تنظیمیں خود کو معیاری جماعت اور حق یافتہ گروہ ثابت کرنے کے لیے جس طرح ایک حدیث پیش کر کے اور اس میں سے من مانا مفہوم نکال کر ایڑ ی چوٹی کا زور لگاتے ہیں ۔اور یہ گمان کرتے ہیں کہ بس وہی حق پر ہیں اور باقی ہر مسلم گروہ و جماعت اور تحریک و تنظیم گمراہ و بے دین اور اللہ معاف کرے جہنمی اور دوزخی ہے ، اس حوالے سے اسٹڈنگ اسلام ہی کے جنرل ٹاپکز کے سب سیکشن ینگ مائنڈز کے ٹاپک ’سلفی‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے میں نے جو کچھ عرض کیا تھا، اسے یہاں نقل کر دیتا ہوں :[/b][/right][/size=4] [size=4][right][b]"سلفی یا اہل سنت و الجماعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے طریقے پر چلنے والے لوگوں کو کہتے ہیں۔ جو قرآن اور سنت کو اپنی بنیاد بناتے ہیں مگر اس زمانے میں جو لوگ دراصل ایک ٹولہ، جماعت یا فرقہ بن چکے ہیں۔ اپنے آپ کو برسرِ حق گردانتے اور دوسروں کو باطل کا علمبردار ٹھہراتے ہیں۔ ان کے اپنے آپ کو سلفی یا اہل سنت والجماعت قرار دے لینے سے ان کا تعلق اس اصل سلفی و اہل سنت والجماعت طبقے سے نہیں جڑ جاتا۔ کیوں کہ اصلاً یہ ایک صفاتی نام ہے نہ کہ گروہی اور جماعتی۔ مطلب یہ کہ کون سلفی ہے یا اہل سنت والجماعت ہے اس کا فیصلہ اس کا اپنا نام سلفی وغیرہ رکھ لینا یا سلفی اور اہل سنت و الجماعت ہونے کا دعویٰ کرنا جیسی بنیادوں پر نہیں ہوگا بلکہ اس کے اس عمل و طریقے کی اساس پر ہوگا کہ وہ واقعتا قرآن و سنت کو اپنی بنیاد بناتا اور اپنے دینی فکر و اثاثے کی انہیں حقیقی سورس بناتا ہے کہ نہیں۔ [/b][/right][/size=4] [size=4][right][b]اس وقت مسلمانوں کی کتنی ہی جماعتیں اور فرقے اس بات کے دعویدار ہیں کہ تنہا وہی سلف صالحین کے طریقے اور اہل سنت و الجماعت کے راستے پر گامزن ہیں اور دوسرے تمام فرقے اور جماعتیں گمراہ و بے راہ ہیں۔ کیا ان میں سے ہر ایک کے دعوے کو درست تسلیم کرلیا جائے اور کیا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ان سب کو اہل حق اور سلفی اور اہل سنت والجماعت تسلیم کرلیا جائے۔ یقیناً ایسا ممکن نہیں ہے۔ [/b][/right][/size=4] [size=4][right][b]اصل بات یہی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین قرآن و سنت و احادیث کی شکل میں چھوڑا ہے۔ صحابہ کرام کی طرح اسے مضبوطی سے پکڑا جائے، اس پر پوری وفاداری و استواری سے عمل کیا جائے اور اپنے حق اور دوسروں کے باطل ہونے کے دعوے اور اعلانات کرنے کے بجائے علمی و فکری اختلافات کے حوالے سے وسعت نظری کا ثبوت دیتے ہوئے تمام مسلمانوں کا احترام کیا جائے۔ اور یہ تسلیم کیا جائے کہ نجات کا دار و مدار ہمارے یا کسی دوسرے فرقے اور جماعت سے وابستگی کی بنیاد پر نہیں ہوگا بلکہ اس بنیاد پر ہوگا کہ کون اس طریقے کے مطابق چلا اور کس نے اپنے عقل و ضمیر کے مطابق جس بات کو حق سمجھا اس پر ہر طرح کے حرص و تخویف اور تعصب و ہٹ دھرمی جیسے محرکات سے بالا تر ہوکر ثابت قدمی اختیار کی۔ مسلمانوں کے ایک بہت بڑے امام شافعی کا یہ بیان اس باب میں مثالی نمونے کا مقام رکھتا ہے کہ ہم اپنی راے کو درست سمجھتے ہیں لیکن اس میں خطا کا امکان تسلیم کرتے ہیں اور ہم دوسروں کی راے کو غلط سمجھتے ہیں لیکن اس میں درستی کے امکان کو تسلیم کرتے ہیں۔[/b][/right][/size=4] [size=4][right][b]حق پسند مسلمانوں کو یہی رویہ زیب دیتا ہے ۔ کیوں کہ ان میں سے کسی پر بھی وحی و الہام نہیں ہوتا کہ وہ یہ گمان کرنے لگے کہ بس اسی کی راے اور روش درست اور مطابق حق ہے اور دوسروں کا تمام کا تمام سرمایہ باطل و خرافات ہے۔ اسی راستے سے مسلمانوں کے اندر رواداری، علمی و فکری آداب، شائستہ و معقول اختلاف کی روایت اور سنجیدگی و استدلال کے دائرے میں رہتے ہوئے تبادلۂ خیالات کا ماحول عام ہوگا۔ آج امت مسلمہ کے افراد میں اتحاد و اخوت پیدا کرنے کے لیے اسی رویے کو سب سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے۔"[/b][/right][/size=4] [red][b][center][size=4][ڈئیر سیفے میرا آپ نے بہت اچھا سوال کیا ہے اور اس کی مختلف ڈائیمنشنز کو کور کرنے کے لیے بہت اچھی مثالیں پیش کرتے ہوئے اپنا سوال سامنے رکھا ہے۔ میں اس پر ضرور کمنٹ کروں گا اور اپنا تفصیلی جواب آپ کی خدمت میں عرض کروں گا۔ (انشاء اللہ تعالیٰ)][/size=4][/center][/b][/red][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top