Powered by
UI
Techs
Home
>
Forums
>
>
General Discussion
>
Some Healthy Comments and Debates
Post Reply
Username
Invalid Username or Password
Password
Format
Andale Mono
Arial
Arial Black
Book Antiqua
Century Gothic
Comic Sans MS
Courier New
Georgia
Impact
Tahoma
Times New Roman
Trebuchet MS
Script MT Bold
Stencil
Verdana
Lucida Console
1
2
3
4
5
6
Message Icon
Message
- Forum Code is ON
- HTML is OFF
Smilies
[quote][blue][size=4][right][b]۔۔۔۔۔۔محترم ذیشان الحق بھائی صاحب، السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔ کافی دیر سے جواب دینے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ تفصیل بتانا تو مناسب نہ ہوگا۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ بہت سی مصروفیات اور آپ سے ہونے والی ڈسکشن کی اہمیت کے باعث اتنی زیادہ تاخیر ہوگئی۔ آپ کی ساری باتیں پڑھنے کے بعد آپ کے غور و فکر کے لیے چند معروضات ذیل میں پیش کررہا ہوں، ان میں آپ کی باتوں کو جواب بھی آجائے گا اور میرے نقطۂ نظر کی کچھ مزید توضیح بھی ہوجائے گی۔[/b][/right][/size=4][/blue] [size=4][b][right][blue]پورے قرآن کو ماننے لیکن ایک آیت کا انکار کرنے اور تمام ذخیرۂ احادیث پر اعتقاد رکھنے مگر ایک صحیح حدیث کو جھٹلانے جیسے رویوں کا جہاں تک تعلق ہے یقیناً ان کی خرابی و گمراہی میں کوئی شک نہیں ہے۔ کوئی شخص اگر واقعتا کسی غلط فہمی یا فہم و معقولیت کے پہلو سے کسی واقعی اشکال وغیرہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ بس یونہی کسی آیتِ قرآنی اور صحیح و مستند روایتِ نبوی کا انکار کررہا ہو تو اس کے غلط اور گمراہی کا شکار ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں رہ جاتا۔ ان مثالوں کے ذکر کرنے کے بعد آپ نے پوچھا ہے کہ جب بڑی تعداد میں احادیث میں صحابہ کرام کی شان و عظمت بیان ہوئی ہے اور پوری امتِ مسلمہ شروع سے متفقہ طور پر صحابہ کرام کو عادل و ثقہ اور قابلِ احترام و توقیر ہستیاں قرار دیتی آئی ہے تو اگر کوئی شخص یا گروہ ان کی شان میں گستاخی کرتا اور ان کے فضائل و کمالات کا انکار کردیتا ہے تو کیا اس رویے کے بعد بھی ہم انہیں غلط اور گمراہ یا کافر کہنے سے پرہیز و گریز کریں؟ میں عرض کروں گا کہ میں دراصل آپ کو یہ بات بتانے کی کوشش کررہا ہوں کہ غلط کو غلط کہنا اور کسی کفریہ عقیدہ و فکر کا تجزیہ کرکے اس کے قائل کا کفر پر ہونا ظاہر کرنا اپنی ذات میں کوئی تشدد، ممنوعہ عمل اور قابل رد و اعتراض بات نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کام کس کے کرنے کے ہیں؟ کیا ایک عام مسلمان کھڑے ہوکر ان بنیادوں پر کسی فرد یا جماعت کے کفر و گمراہی کا اعلان کرسکتا ہے؟ یا یہ معاملات عام افراد کے بجائے دین کے علما اور مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی اور اس میں موجود بااختیار قاضیوں سے متعلق ہیں؟ قادیانیوں کا جہاں تک معاملہ ہے ذرا بتائیے کہ ان کے کفر و ضلالت کا فیصلہ کس نے دیا؟ کسی ایک چلتے پھرتے عام آدمی نے یا دو چار علما و فقہا نے مشاورت کرکے یا پھر علما کی ایک بڑی تعداد جس میں تقریباً تمام نمایاں مکاتبِ فکر کے علما مجتمع تھے، انہوں نے باقاعدہ ایک بااختیار عدالت میں مقدمہ دائر کیا۔ اور اس کی پیروی کرکے مقدمہ جیتا اور اسی بااختیار عدالت سے انہیں کافر اور غیرمسلم قرار دلوایا۔ آپ کسی دوسرے گروہ اور فرقے کے عقائد و خیالات یا لٹریچر کو اسی درجے میں قابلِ اعتراض سمجھتے ہیں تو اسی قانونی و عدالتی راستے کو اپنائیے۔ اپنی ذاتی حیثیت میں آپ کو یا کسی مفتی و علامہ کو ایسا کوئی حق و اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی فرد یا جماعت کے کفر و ضلالت کا فتویٰ و فیصلہ صادر کرے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ اپنی حدود کو نہیں پہچانتے اور اپنے دائرے سے تجاوز کرکے بہت سے فتوے اور فیصلے صادر فرماتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ ایک قابلِ اصلاح معاملہ ہے نہ یہ کہ آپ اس غلطی کو بنیاد بناکر مزید اسی طرح کی غلطیوں کے ارتکاب کی تحریک چلائیں۔ [/blue][/right][/b][/size=4] [right][blue][b][size=4]جو حدیث آپ نے پیش کی ہے جس میں اپنی استطاعت کے مطابق برائی کو زبانی تلقین سے یا طاقت سے روکنے یا کم از کم دل سے برا جاننے کی نصیحت کی گئی ہے، اس کا مطلب کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک عام آدمی بازار میں کسی کو برائی کرتے ہوئے دیکھے تو ڈنڈا لے کر اس پر ٹوٹ پڑے اور اسے اس برائی سے باز رکھنے کی کوشش کرے اور اگر وہ اس برائی کا ارتکاب کربیٹھا ہو تو اسے سزا دے ڈالے۔ میرے بھائی اس حدیث کا تعلق انسان کو اس کے اختیاری دائرے میں مطلوب رویے کے بارے میں تلقین سے ہے۔ یعنی ایک انسان بہرحال اپنا ایک اختیاری دائرہ رکھتا ہے جس میں اس کے بیوی بچے اور ماتحت وغیرہ آجاتے ہیں۔ ان میں سے اگر کوئی برائی کا ارتکاب کرنے جارہا ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ انہیں اس سے بزور باز رکھنے کی کوشش کرے۔ لیکن اگر وہ اتنا مضبوط ایمان نہ رکھتا ہو اور اس کی ذہنی و نفسیاتی استطاعت اتنی ہی ہو کہ وہ بس زبانی تلقین ہی کرسکتا ہو تو اسے اس سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے اور اگر وہ اس معاملے میں اتنا کمزور ہو کہ نہ طاقت و زور سے اپنے زیرِ اختیار افراد کو برائی سے باز رکھ سکے یا انہیں زبانی تنبیہ ہی کرنے کی جرأت کرے تو کم از کم اس میں اتنا ایمان و غیرت تو بہرحال ہونا چاہیے کہ وہ دل میں اس برائی کی قباحت کو محسوس کرے اور اسے برا جانے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس روایت کو لے کر آپ مسلمانوں کو یہ درس دیں کہ وہ معاشرے میں خدائی فوجدار بن جائیں اور کسی برے آدمی کو کوئی برا کام کرنے نہ دیں اور پولیس اور قانون کا کام اپنے ہاتھوں میں لے کر بروں کی ان کی بدی و برائی کی سزا خود ہی دے ڈالیں۔ اس عمل سے معاشرے میں خیر کا فروغ اور برائی کا استیصال نہیں ہوگا بلکہ انارکی اور بدامنی پھیلے گی۔ لوگ پولیس اور قانون کی ذمہ داریاں اپنے ہاتھوں میں لے کر جسے چاہیں گے یا تو واقعی برائیوں کی بنیاد پر سزا دے ڈالیں گے یا پھر اپنی ذاتی و خاندانی دشمنیوں کو بنیاد بناکر لوگوں کو غلط طور پر برے کاموں کا مرتکب قرار دے کر انہیں ان برے کاموں کی بطورِ خود سزا دے کر اپنی دشمنیاں نکالیں گے۔ اپنے اس اختیاری دائرے سے، جس کے حوالے سے مذکورہ حدیث میں ہدایت کی گئی ہے، باہر ایک مسلمان کا اپنے معاشرے میں عمومی رویہ کیا ہونا چاہیے، اس حوالے سے مسلمانوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ وہ باہم ایک دوسرے کو بھلائیوں کی تلقین کرتے اور برائیوں سے منع کرتے ہیں۔ یعنی زبانی نصیحت و تلقین کے اندز میں آپ سماج میں کسی بھی جگہ کسی بھی شخص کو کسی خیر کی طرف متوجہ کرسکتے اور کسی غلط کام و کاروائی سے رکنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ اس سے سوسائٹی میں کوئی انتشار و انارکی نہیں پھیلتی۔ ہاں اگر زبانی نصیحت سے بھی کہیں فتنے اور برائی کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو تو حکمتاً اس سے بھی گریز کیا جاسکتا ہے کیوں کہ سماج میں فساد و بگاڑ اور انتشار و انارکی خدا کے انتہائی ناپسندید امور میں سے ہے، اسے بہرحال گوارا نہیں کیا جاسکتا۔ [/size=4][/b][/blue][/right] [size=4][b][right][blue]میرے بھائی مجھے صحیح کو صحیح کہنے اور غلط کو غلط کہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور نہ ہی اس بات پر کوئی اشکال و شکایت ہے کہ ایک مسلمان صحیح باتوں کی تلقین کرنے اور غلط اور نادرست افکار و معمولات کی نشاندہی کرنے کی روش اپنائے۔ یقیناً یہ دین کی تعلیم و ہدایت کے مطابق ایک بالکل صحیح طرزِ عمل ہے اور مجھے بھی اس سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ آپ کے اس حوالے سے مجھ سے پوچھے ہوئے سوالات سے یہ لگتا ہے کہ شاید آپ کو میرے بارے میں یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ میں غالباً ان باتوں سے اختلاف رکھتا ہوں اور صحیح کو صحیح کہنے اور غلط کو غلط بتانے اور صحیح و غلط کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی دینے سے منع کررہا ہوں۔ اپنی یہ غلط فہمی دور کرلیجیے، کیوں کہ ان معقول باتوں سے مجھے ہرگز کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن اتنی بات ضرور ملحوظ و پیش نظر رکھیے کہ ہر انسان کو معاملہ اپنے حدود و قیود میں رہ کر ہی کرنا چاہیے۔ جس طرح دنیا میں جو کام دھوبی کے کرنے کا ہے وہ نانبائی نہیں کرسکتا اور ڈاکٹر کا کام پلمبر نہیں انجام دے سکتا، اسی طرح دینی حوالے سے بھی ایک عالم و فقیہ کی ذمہ داریاں یا ایک رئیس و سربراہِ مملکت کے فرائض ایک عام آدمی نہیں ادا کرسکتا۔ یہ عالم کا کام ہے کہ وہ دینی ہدایات و احکامات و تعلیمات کی تشریح و توضیح کرے اور یہ بتائے کہ کیا چیزیں ماننا دینی لحاظ سے ضروری ہیں اور کون سے افکار و خیالات دینی لحاظ سے ناقابلِ قبول اور کفر و گمراہی ہیں۔ کسی پر فتویٰ لگانا اور اس کے غیرمسلم یا کافر ہونے کا فیصلہ سنانا ایک عالم کے بھی دائرۂ حدود سے باہر کا معاملہ ہے۔ یہ مسلمانوں کی ایک بااختیار حکومت اور ان کے نظم اجتماعی کے سربراہان کے تحت قائم شدہ بااختیار عدالتوں کا معاملہ ہے۔ جہاں اس طرح کے معاملات میں باقاعدہ مقدمہ دائر کرکے پہلے ثابت کیا جائے گا کہ کسی شخص یا گروہ کے یہ یہ افکار و عقائد ہیں اور یہ ان وجوہات اور دلائل کی بنا پر کفر و گمراہی ہیں۔ ان سارے مراحل سے گزرنے کے بعد یہ عدالت کا کام ہے کہ وہ کسی کو دائرہ اسلام سے خارج، غیر مسلم یا کافر ٹھہرائے۔ ہر ایرا غیرا اور گلی بازار میں چلتا عام مسلمان یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ بس اپنی ذاتی حیثیت میں کسی کے اعتقادات کو گستاخانہ، کفریہ اور شرکیہ قرار دے کر اس کے خارج از اسلام ہونے کا اعلان و فیصلہ نشر کرتا پھرے۔ اس طرح کی باتیں مسلم معاشرے میں انارکی، طوائف الملوکی اور باہمی بغض و بگاڑ کا طوفان برپا کردینے والی ہیں۔ مسلمانوں کی اجتماعی طور پر اسی طرح کی جسارتوں نے آج انہیں باہم دیگر دست و گریباں کررکھا ہے اور آج وہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو اپنے زعم کے مطابق کافر و مشرک اور باغی اسلام قرار دے کر ان کا جان، مال، آبرو اور ہر چیز حلال بنائے ہوئے ہیں۔ [/blue][/right][/b][/size=4] [size=4][blue][right][b]ایک بات یہ بھی یاد رکھیے کہ بہت سے افکار و معمولات کے بظاہر غلطی پر مبنی اور کفر و شرک نظر آنے کے باوجود یہ ہوسکتا ہے کہ ان کا قائل و عامل کسی غلط فہمی یا تاویل و تعبیر کی کسی کوتاہی کے باعث ان میں مبتلا ہو۔ ایسی صورتحال میں ہمارا کام یہ نہیں ہے کہ ہم بس چھوٹتے ہی اس کے دائرہ اسلام سے آؤٹ ہونے کا اعلان کرنے لگیں بلکہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس کی غلط فہمی اور تاویل و تعبیر کی ناسمجھی کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ اس وقت مسلمانوں میں کیسے کیسے افکار رائج ہیں جو سراسر قرآن و سنت کے خلاف ہیں اور ایسے ہی کتنے خلافِ اسلام معمولات مسلمانوں کی عادت و مذہبیت کا جزو لاینفک قرار پاچکے ہیں اور یہ سب کچھ نسل در نسل ان میں منتقل ہورہا ہے۔ وہ مسلمان جو خدا و رسول کو مانتے اور قرآن و سنت پر ایمان رکھتے ہیں، آخرت کے بھی قائل ہیں، فرشتوں اور نبیوں پر بھی اعتقاد رکھتے ہیں، وہ تک نادانی اور ناسمجھی اور غلط سلط تاویلات کی بنا پر انہیں غلط اور خلافِ اسلام نہیں سمجھتے۔ ایسے میں اگر ہم انہیں سمجھانے اور فکر و عمل کی ان غلطیوں کی حقیقت سے واقف کرانے کے بجائے جھٹ انہیں کافر و مشرک اور بدعتی قرار دینا شروع کردیں تو یہ نری زیادتی ہوگی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم پیار و محبت اور ہمدردی و اپنائیت سے ایسے مسلمان بھائیوں کی غلط فہمیوں اور فکر و عمل کی کجیوں کو دور و ختم کرنے کی کوشش کریں۔ ان کے سامنے قرآن و سنت کی اصل تعلیمات رکھیں اور انہیں دلائل کی بنیاد پر یہ سمجھانے اور باور کرانے کی جستجو کریں کہ یہ عقیدے اور اعمال دین کی تعلیمات و مزاج کی روشنی میں نادرست ہیں، غلط اور خلافِ اسلام ہیں۔ خدا کے پیغمبروں کا یہ نمونہ کہ وہ سالہا سال تک اپنی قوموں اور اپنے ہم وطنوں کو ہدایت کے راستے پر لانے اور ان کے ہاں پائے جانے والے کفر و شرک پر مبنی خیالات و رسومات سے انہیں دور کرنے کی کوشش کرتے تھے، اس میں ہمارے لیے بڑی روشنی اور رہنمائی ہے کہ ہم اگر کسی مسلمان کے فکر و عمل اور عقائد و معمولات میں کوئی خامی اور خرابی دیکھیں تو بار بار اسے سمجھانے اور اس غلطی و گمراہی سے نکالنے کی کوشش کریں نہ یہ کہ پہلے ہی مرحلے اور اول بار ہی میں اس کی گمراہی کا اعلان فرمانے لگیں۔ باقی اگر کوئی جماعت یا گروہ مستقلاً کسی غلط بنیاد پر جم گیا ہے اور نسلاً بعد نسلٍ وہ اسے اپنائے ہوئے ہے تو بھی ان کے بالمقابل صحیح بنیاد پر قائم مسلمانوں کو انہیں راہِ راست پر لانے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے اور اس معاملے میں ہمدردی و خیرخواہی ہی سے کام لینا چاہیے نہ یہ کہ ہم اسے اپنا دشمن اور اسلام کا باغی باور کرکے اس سے دشمنوں اور غیروں جیسا سلوک کریں۔ مسلمانوں کا کام لوگوں کو ہدایت و نجات کے راستے کی طرف لانے کی کوشش کرنا ہے نہ کہ ان کی غلطیوں اور گمراہیوں کو بنیاد بناکر انہیں اپنا دشمن سمجھنا اور پھر مستقل طور پر ان سے نفرت و عداوت کے جذبات میں جینے لگنا۔ جو بات غلط ہے، گمراہی ہے اس کی غلطی و گمراہی کے بارے میں ضرور آگاہی پھیلائیے لیکن یہ کام علما کو کرنے دیجیے اور علمی انداز اور علمی دائرے تک محدود رکھیے۔ اور اگر نوبت اسے بنیاد بناکر کسی فیصلے کے کرنے کی آجائے تو انفرادی و شخصی طور پر فیصلہ کرنے کے بجائے اسے قانون و عدالت کےکٹہرے میں پیش کرکے یہ کام وہاں موجود بااختیار قاضیوں کو کرنے دیجیے۔ [/b][/right][/blue][/size=4] [size=4][blue][right][b]ایک مزید بات یہ جو کہ بہت ہی زیادہ اہم اور اساسی ہے کہ قرآن و سنت اور احادیث میں ایک مسلمان کے لیے جن باتوں پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے وہ بنیادی ایمانیات و اخلاقیات کو دل و جان سے اپنانا اور شرعی فرائض و واجبات کی حسن و خوبی کے ساتھ بجاآوری ہیں۔ لہٰذا ہمیں بھی اپنی دعوت و پیغام رسانی کی بنیاد انہی باتوں کو بنانا چاہیے۔ کسی طبقے اور فرقے کے کیا عقائد و خیالات ہیں اور ان کی بنیاد پر وہ مسلمان رہتے ہیں یا کافر و غیر مسلم ہوجاتے ہیں، یہ باتیں عمومی طور پر لازماً ہر مسلمان کے لیے جاننا اور ماننا قرآن و حدیث کی روشنی میں کوئی ضروری چیزیں نہیں ہیں۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اپنی ساری زندگی میں میں نے کسی قادیانی اور شیعہ کی زبان سے وہ عقائد و تصورات نہیں سنے جو عام طور پر ان حلقوں سے منسوب کیے جاتے اور جن کی بنیاد پر انہیں گمراہ، غیرمسلم اور کافر ٹھہرایا جاتا اور پھر ہر ایک مسلمان سے یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ بھی لازماً ان کے بارے میں یہی باور کرے۔ کیوں، یہ آخر کیوں ضروری ہے کہ ہر مسلمان لازماً گمراہ فرقوں کے بارے میں اور ان کے غلط و نادرست یا کفر و گمراہی پر مبنی خیالات و اعتقادات کے بارے میں جانے اور ان کی بنیاد پر ان کے خارج از اسلام ہونے کا یقین رکھے۔ مجھے بتائیے کہ قرآن و حدیث میں یہ ہدایت کہاں دی گئی ہے۔ جب میں اسلام کے بنیادی پیغام سے واقف ہوں، اسے مانتا ہوں اور اس کے مطابق اپنی زندگی درست طور پر گزار رہا ہوں تو اس کے بعد ان تفصیلات کی میرے لیے کیا اہمیت ہے، میں کیوں انہیں لازماً جانوں اور ان کے باب میں کوئی نہ کوئی مؤقف اور رائے رکھوں؟ کیا میں ان سے بے خبر اور غیر متعلق رہ کر مسلمان باقی نہیں رہ سکتا اور اپنی آخرت کی فلاح اور خدا کی رضا کے لیے کوشش کرنے میں کامیاب و کامران نہیں ہوسکتا؟[/b][/right][/blue][/size=4] [b][blue][right][size=4]آپ سے درخواست ہے کہ میری 23 ستمبر کی ای میل دوبارہ پڑھ لیجیے گا اور اس میں پیش کیے گئے نکات پر ایک مرتبہ پھر غور فرمالیجیے گا۔ جاتے جاتے میں چاہتا ہوں کہ ان دوسرے ضنمی نکات کے حوالے سے بھی اپنا مؤقف واضح کردوں جو آپ نے بیان فرمائے ہیں۔ (۱) عالم کو چیک کرنے سے آپ بڑے عالم نہیں ہوجاتے۔ جس طرح مختلف ڈاکٹروں سے چیک اپ کرانے کے بعد آپ بغیر ڈاکٹر بنے یہ اندازہ لگالیتے اور فیصلہ کرلیتے ہیں کہ ان میں زیادہ قابل و ماہر ڈاکٹر کون سا ہے۔ ایسے ہی مختلف علما کی گفتگو اور تقاریر سن کر یا ان کے مضامین اور تحریریں پڑھ کر آپ کے لیے یہ معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ ان میں سے زیادہ صحیح اور معقول بات کرنے والا کون ہے۔ (۲) برائی کو ہاتھ یا زبان سے روکنے یا دل سے برا جاننے کے حوالے سے جو ہدایت دی گئی ہے، اس کا صحیح محل کیا ہے میں نے اوپر واضح کیا ہے۔ اسے دوبارہ پڑھ لیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اس کا تعلق انسان کے اختیاری دائرے سے ہے ورنہ عمومی طور پر دعوت و تبلیغ کا کام کرتے ہوئے یا معاشرے میں جیتے ہوئے روز مرہ زندگی میں اس حوالے سے کیا رویہ ہونا چاہیے، اس سلسلے میں یاد رکھیے کہ صرف اور صرف تلقین کرنے، نصیحت فرمانے اور ترغیب و تشویق دینے کی ہدایت ہے۔ داروغہ اور چوکیدار بننے یا سر پر سوار ہوجانے کی جہاں تک بات ہے یا طاقت سے روکنے کا جہاں تک سوال ہے تو ان کاموں سے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نمائندوں یعنی پیغمبروں اور رسولوں کو بھی سختی سے منع فرمایا ہے۔ (۳) آپ فرماتےہیں کہ صحابہ جن کے شاگردوں اور شاگردوں کے شاگردوں کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر فرمایا ہے۔ اب جو لوگ ان کی بارگاہ میں بے ادبی و گستاخی کے مرتکب ہوتے اور نازیبا الفاظ و بیانات استعمال کرتے ہیں کیا ہم انہیں مسلمان سمجھیں۔ چلیے ٹھیک ہے آپ اپنی ذاتی حیثیت میں یہ گمان مت رکھیے لیکن اس کے بعد کیا انہیں سمجھانے اور اس غلطی سے نکالنے کے لیے کوشش کرنا بھی حرام و ناجائز ہوجاتا ہے اور یہ ضروری اور فرض ہوتا ہے کہ آپ انہیں اسلام دشمن اور ابدی گمراہ قرار دے دیں اور ساری دنیا میں یہ تبلیغ کرتے پھریں کہ جب تک تم انہیں گمراہ اور کافر تسلیم نہیں کرلیتے، تمہارا ایمان و اسلام ہی غیر معتبر اور مشکوک ہے۔ کیا وہ لوگ جو اس زمانے میں صحابہ تو دور رہے خدا ہی کا انکار کرتے اور اس کائنات کے پیچھے کسی خالق و مالک خداوند کے ہونے کے تصور کا کھلے بندوں مذاق اڑاتے ہیں، ان کے بارے میں بھی آپ کا رویہ یہی ہوگا کہ آپ انہیں خدا کے گستاخ اور سدا کے گمراہ و کافرین قرار دے کر ان تک اسلام کا پیغام و کلام پہنچانے کی زحمت ہی نہ کریں۔ یقیناً نہیں بلکہ آپ کو انہیں بھی سچائی اور ہدایت کی طرف بلانا ہوگا۔ ایسے ہی جو لوگ صحابہ کرام کی عظمت و فضیلت کے باب میں شک و انکار کا اظہار کررہے ہیں، انہیں بھی آپ درست بات اور عقیدے کی طرف بلاتے رہیے اور ہمدردی و خیرخواہی کے ساتھ بلاتے رہیے۔ انہیں ابدی شقی و بدبخت قرار دے کر ان کی ہدایت سے مایوس ہوکر انہیں اپنا دائمی دشمن مت سمجھیے۔ (۴) اچھے عالم سے متعلق سوال کے جواب میں میں کسی کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا کیوں کہ میں الحمد للہ مسلمانوں کے مختلف حلقوں سے تعلق رکھنے والے تمام علما و محققین کا احترام کرتا اور ان کے کام و تحریرات سے استفادہ کرتا ہوں۔ آپ بھی اسی وسعت کے ساتھ ہر اچھے عالم و محقق کی کتابوں کا مطالعہ کیجیے، بہت فائدے میں رہیں گے اور آپ کے علم و فکر میں بہت زیادہ روشنی اور اضافہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔[/size=4][/right][/blue][/b][/quote]
Mode
Prompt
Help
Basic
Check here to be notified by email whenever someone replies to your topic
Show Preview
Share
|
Copyright
Studying-Islam
© 2003-7 |
Privacy Policy
|
Code of Conduct
|
An Affiliate of
Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences ®
Top